حج ابراہیمی کے تقاضے

حج ابراہیمی کے تقاضے

ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات کا ایک حصہ حج اور اس کے اعمال و برکات کے بارے میں بھی ہے، جس میں حج کو سب سے بڑی بین الاقوامی اسلامی کانفرنس قرار دیا گیا ہے

تحریر: حسن عقیقی

 

اس سال بیت اللہ الحرام کے عازمین ایسی حالت میں مناسک حج ادا کر رہے ہیں کہ پوری دنیا مسلمان فلسطینی عوام پر ظلم و ستم اور غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے مسلسل جرائم کی شاہد ہے۔ حج عظیم انبیاء کی روایت اور خدا کے احکامات اور اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس الہیٰ فریضہ کی نشاندہی کی ہے اور انبیاء سے کہا ہے کہ وہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں۔ اسلام کی اہم ترین عبادات میں سے ایک کے طور پر، حج کا مذہبی فریضہ بیت اللہ الحرام کے زائرین کے لیے بہت سے اثرات اور برکات رکھتا ہے۔

 

ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات کا ایک حصہ حج اور اس کے اعمال و برکات کے بارے میں بھی ہے، جس میں حج کو سب سے بڑی بین الاقوامی اسلامی کانفرنس قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں حج کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہر سال دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں بے تاب مسلمان مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین کا رخ کرتے ہیں اور تمام مشکلات و مصائب کو سہتے ہوئے میقات پر پہنچ کر حج کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس وقت مختلف اسلامی ممالک سے تقریباً 20 لاکھ عازمین حج مناسک حج میں شریک ہیں۔ اس سال حج کے مراسم دنیا میں رونماء ہونے والے واقعات اور دنیا بھر میں فلسطینی عوام کی حمایت میں اٹھنے والی تحریکوں کے پیش نظر بہت اہم ہیں۔

 

اس لیے اس سال کا حج غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت اور صیہونی حکومت کے جرائم اور نسل کشی کی مذمت کے لیے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایران کے حج مشن کے عہدیداروں اور نمائندوں اور بیت اللہ الحرام کے زائرین کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں خدا کی شاندار عبادت اور "مسلمانوں کے اتحاد اور ربط" کو حج کے دو اہم ستون قرار دیا۔ آپ نے فریضہ حج کے اہم روحانی اور سماجی عناصر نیز غزہ کے عظیم واقعہ اور صیہونی حکومت کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "اس سال کا حج قرآن کریم کی آیات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد اور حضرت ابراہیم کے اسم مبارک کی روشنی میں منانا چاہیئے۔  اس سال کا حج ابراہیمی ہر سال سے زیادہ مسلمانوں کو اس مجرمانہ دشمن اور اس کے حامیوں سے نجات دلانے کا حج ہونا چاہیئے۔"

 

رہبر معظم انقلاب کے بقول اس سال کا حج صیہونی مجرم دشمن اور اس کے حامیوں سے بری ہونے کا حج ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکام اور دیگر مغربی ممالک غاصب صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ پٹی کے بے دفاع لوگوں کے قتل عام اور اس علاقے کے بہت سے باشندوں کو بے گھر کرنے کے مجرمانہ اقدامات کے باوجود اسرائیل کی زیادہ سے زیادہ حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب تقریباً 9 ماہ ہوچکے ہیں کہ دنیا نے اس علاقے میں صیہونیوں کی سب سے زیادہ جارحیت دیکھی ہے اور بین الاقوامی تنظیموں، انسانی حقوق کے دعویدار ممالک حتیٰ کہ بعض عرب اور اسلامی حکومتوں نے بھی غزہ کے عوام کی حمایت کے لیے نہ موثر اقدامات کیے ہیں اور نہ ہی طاقت کا استعمال کیا ہے، انہوں نے صہیونیوں کے جرائم کو روکنے میں کوئی موثر اقدام نہیں کیا ہے۔

 

اسی مناسبت سے اس سال کا حج مسلمانوں اور دنیا کے مظلوموں پر ظلم کرنے والے صیہونیوں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اصل چہرے کو ایک بار پھر بے نقاب کرنے کا موقع قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ حج کا اجتماع ایک انفرادی عبادت کے علاوہ ایک عالمی کانفرنس بھی ہے۔ یہ اجتماع انصاف کے حصول، ظالموں کے خلاف لڑنے اور مسلم قوم بالخصوص غزہ کی پٹی کے مکینوں کے ظلم و ستم پر آواز اٹھانے کا ایک بہت بڑا سماجی اور اہم موقع ہے۔

ای میل کریں