میں درد چاہتا ہوں ، دوا چاہتا نہیں
عاشق ہوں میں ترا، ترا بیمار عشق ہوں
تیری جفا کو جان کے بدلے خرید لوں
میری نظر میں عین وفا ہے تری جفا
ہوں جستجوئے غم میں ، نوا چاہتا نہیں
لیکن میں اس مرض سے شفا چاہتا نہیں
ہرگز میں تجھ سے ترک جفا چاہتانہیں
بس اس لیے میں تجھ سے وفا چاہتا نہیں
''مروہ'' مرا تو ہی ہے، تو ہی مرا ''صفا''
''مروہ'' کو متصل بہ ''صفا'' چاہتا نہیں
صوفی تو وصل دوست سے اب تک ہے بے خبر
میں ایسے صوفیوں سے صفا چاہتا نہیں
تو ہی مری دعا ہے، تو ہی ذکر ہے مرا
میں کوئی ذکر و فکر و دعا چاہتا نہیں
قبلہ تو میرا تو، ہے، میں جس سمت رخ کروں
قبلہ سے کہہ، میں قبلہ نما چاہتا نہیں
جس پر تری نظر ہو، وہ خود تجھ پہ ہو فدا
آفاق میں ہے گرچہ ترے رخ کی روشنی
فدیہ کسی کا اپنی جگہ چاہتا نہیں
میں ظاہری خط کف پا چاہتا نہیں