تحریر: منظوم ولایتی
محرم الحرام کا مہینہ چل رہا رہا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی ہمیں بتاتی ہے کہ اِس مہینے میں مشرکینِ عرب بھی جنگ و جدل اور قتل و قتال سے احتراز کیا کرتے تھے۔ دین مقدس میں تو محروم کو " اشھر الحُرُم" میں شامل کیا گیا اور سال کے چار مہینوں دیا خصوصی اہمیت دی گئی۔
اب قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر سانحہ کربلا محرم کے مہینے میں کیوں ہوا؟ کیا کربلا کے گرم ریگزار میں فرزندِ رسولؐ کو اپنے اصحاب و انصار سمیت بھوکا اور پیاسا شہید کرنے والے قرآنی تعلمیات سے مطلع نہ تھے؟ یا وہ مطلع تو تھے لیکن کچھ دیگر امور باعث بنے کہ انہیں اِسی حرمت والے مہینے میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنا پڑا؟
قارئین کی خدمت میں مٙیں چاہتا ہوں اِس سے بھی باریک و دقیق سوالات اٹھاؤں کہ اصلاٙٙ امام حسین علیہ السلام کو شہید ہی کیوں کیا گیا؟ کیا آپؑ کسی کے لئے مانع و رکاوٹ تھے یا نہیں اتفاقی طور پر سانحہ کربلا وقوع پزیر ہوا اور وہ سب کچھ ہوا جو قطعا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
اِس سے بھی لازمی اور ضروری سوال یہ ہے کہ فلسفہ قیام امام حسین علیہ السلام کیا تھا کہ جس کی خاطر امام عالی مقام نے اِس قدر عظیم قربان پیش کی اور تاریخ میں امر ہوگئے؟ مذکورہ بالا سوالات کا جواب سمجھنے کیلیے ہمیں دو چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا: اُس زمانے کی سیاسی تاریخ اور اقوالِ امام عالی مقامؑ۔
تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سنہ 60ء میں معاویہ بن ابوسفیان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اُن کا بیٹا یزید برسرِ اقتدار آتا ہے اور شام کے اندر ملوکیت اپنے نقطہ عروج کو پہنچتی ہے اور ساتھ ہی یزید امام حسینؑ اور کچھ دیگر نامور شخصیات سے بیعت طلب کیا جاتا ہے، جسے امامؑ ٹھکراتے ہیں اور اپنے قیام کا اعلان فرماتے ہیں:
خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں (جیسے اموی حکمرانوں کے خلاف خطبے اور اقدامات) یہ سب حکومت اور دنیا کی ناچیز متاع میں سبقت کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانی لوگوں کو دکھا دیں (برپا کریں) اور تیری سرزمین پر اصلاح کو ظاہر و آشکار کریں، میں چاہتا ہوں کے تیرے ستم رسیدہ بندے امن و امان میں رہیں اور تیرے احکام و قوانین پر عمل کیا جائے۔ (تحف العقول،ص ۲۳۹)۔ ان جملات میں غور و فکر سے یزید کے دور میں امام حسینؑ کے اقدامات کے چار اصل مقصد سامنے آتے ہیں:
الف: حقیقی اسلام کی نشانیوں کو زندہ کرنا
ب: اسلامی مملکت کے لوگوں کی حالت کی اصلاح و بہبودی
ج: ستم رسیدہ لوگوں کے لئے امن و امان کی فراہمی
د: احکام و واجبات الٰہی پر عمل کے لئے مناسب مواقع فراہم کرنا
اب جب امام حسینؑ نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو مخاطب کر کے اپنے قیام کا جو ہدف بیان کیا ہے وہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں آپؑ نے فرمایا ہے:
إِنّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَلَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَلَا ظَالِماً إِنَّمَا خَرَجْتُ لِإِصْلاحِ أُمَّة جَدِّي وأُرِيْدُأَنْآمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسِيْرُ بِسِيْرِة جَدِّي وَأَبِي عَلِي بن أبي طالب (ع)۔ یعنی اپنے قیام کی علت کا بیان کرنے کے لیے چہار پہلوں کا اعلان فرمایا:
۱۔ اصلاح امور امت
۲۔ امر باالمعروف معروف
۳۔ نہی از منکر
۴۔ اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی پیروی
اِس سال کے محرم کی خاص بات یہ ہے کہ صہیونی فلسطین کے اندر کربلا بپا کیے ہوئے ہیں۔ چالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے اور لاکھوں زخمی ہیں۔ ایسے میں کربلا کو امت مسلمہ کے اندر اتحاد و یکجہتی کا مظہر بناکر پوری دنیا کے مسلمانوں کو مسلکی اوع گروہی اختلافات کے باوجود متحد ہونا چاہیئے کہ مسلم امہ اسلام دشمن قوتوں خاص طور پر ظالم صہیونیوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے جتنا ہوسکے انسانیت بالخصوص مسلم دنیا کو بیدار کریں اور آج کے یزید صہیونیوں کے خلاف صف آراء ہوا جاسکے۔ کربلا میں حرمت والے مہینے میں یزید نے جنگ کی تھی اور آج یزید کی روش پر چلتے ہوئے صہیونی محرم کے مہینے میں بھی اپنی بربریت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سوچنے کا مقام پے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران ہوش میں آئیں اور مل کر مظلوم فلسطینیوں کو صہیونیوں کے مظالم سے نجات دلانے کیلیے متحرک ہوجائیں؟
یاد رکھیں: کل ارض کربلا و کل یوم عاشورا، ہر زمین کربلا ہے اور ہر دن عاشورا، ہم سب نے اپنے گریباں میں جھانک دیکھنا ہے کہ آج کی کربلا میں ہم صہیونی بلاک میں کھڑے ہیں یا مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ۔ ہاں اِس بات کا فیصلہ ہمارا قول نہیں عمل کرے گا ہماری حکمومتی پالیسیز کریں گی کہ وہ صہیونی نواز ہیں یا فلسطین کے حق میں۔ آخر مسلم دنیا کے حکمرانوں کو کس چیز کا ڈر ہے؟ ذرا سوچیے۔!! پاکستان کے نامور شاعر جناب اختر عثمان کی اِس رباعی کے ساتھ رخصتی کا طالب ہوں:
کہتے ہو کہ ہو اُسوہِ شبّیر پہ قائم
دربار میں کیوں جاتے ہو، سَر کیوں نہیں جاتا؟
کہتے ہو جو تم روح سے "لبّیک حسینا"
پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا؟