امام حسن عسکری (ع) کا وکلاء سسٹم، آج بھی نظامِ مرجعیت کی صورت میں قابلِ دید ہے

امام حسن عسکری (ع) کا وکلاء سسٹم، آج بھی نظامِ مرجعیت کی صورت میں قابلِ دید ہے

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے بڑی تعداد میں موجود مؤمنین بالخصوص نوجوانوں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید آوینی نے بہت ہی اہم بات بیان کی کہ ہم اپنے گزشتہ آئمہ علیہم السّلام کا تذکرہ زیادہ کرتے ہیں

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہر بنارس کے وجیا نگرم، ریوڑی تالاب بھیلوپورہ علاقہ میں ابو الحسن سوسائٹی کے زیر اہتمام گزشتہ برسوں کی طرح ماہ محرم و صفر کے علاوہ ماہ ربیع الاول کی ابتداء میں عشرۂ مجالس و خمسہ مجالس کا با وقار انتظام کیا گیا۔

 

ماہ صفر میں ہونے والی خمسہ مجالس سے مولانا عاصم باقری(لکھنؤ) نیز مولانا فضل ممتاز(جونپور) نے خطاب کیا جبکہ ماہ ربیع الاول کی ابتداء میں منعقد ہونے والے خمسہ سے مولانا سید حیدر عباس رضوی(لکھنؤ) نے خطاب کیا۔

 

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اپنے مخصوص طرز خطابت سے سنت و سیرت پیغمبر اکرم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسلام میں دو مواقع پر اہم موڑ رونما ہوئے ایک تو امام حُسین علیہ السّلام کی قربانی دوسرے امام رضا علیہ السّلام کی ہجرت۔

 

مولانا حیدر عباس رضوی نے بیان کیا کہ جہاں امام حُسین علیہ السّلام کی قربانی کا مقصد سنت و سیرت پیغمبر کا احیاء تھا وہیں امام رضا علیہ السّلام نے بلا شرط ولایتعہدی کو قبول کر کے شیعیت کو بام عروج تک پہنچایا، امام الرؤوف اور بعد کے آئمہ علیہم السّلام کے دور میں مکتب تشیع نے تعداد و کیفیت دونوں لحاظ سے اپنا مقام مستحکم کیا۔

 

مولانا موصوف نے مزید کہا کہ امام عسکری علیہ السّلام نے اس پر فتن دور میں چند ایک اہم کارنامے انجام دئیے جن میں امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کا تحفظ و تعارف، شیعوں کو غیبت کے لئے آمادہ کرنا اور خود اپنے فرزند آخری حجت خدا کو طول عمر کے لئے تیار کرنا سر فہرست ہے، اسی طرح امام حسن عسکری علیہ السّلام نے شیعہ اور محب کے درمیان فرق کو واضح فرمایا نیز وکلاء کا سسٹم اپنے آباء و اجداد کی طرح مستحکم کیا جو آج بھی نظام مرجعیت کی صورت میں قابلِ دید ہے۔

 

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے بڑی تعداد میں موجود مؤمنین بالخصوص نوجوانوں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید آوینی نے بہت ہی اہم بات بیان کی کہ ہم اپنے گزشتہ آئمہ علیہم السّلام کا تذکرہ زیادہ کرتے ہیں، (یقیناً اس میں کمی بھی نہیں کرنی ہے) لیکن اپنے زندہ امام کے بارے میں ہمیں کم سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے، جبکہ کربلا کا ایک اہم پیغام ہے اپنے وقت کے امام کی معرفت حاصل کرنا ہے ، لہٰذا آج ہر عزادار کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو ثار اللہ سے بقیۃ اللہ تک پہنچنے کا سفر طے کرے تو ہی مقصد کربلا کو جلا ملے گی۔

 

واضح رہے کہ ان مجالسِ عزاء کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے قارئ قرآنِ پاک محمد حسن اور امام علی نے کیا، جبکہ سوز خوانی بنارس کے مشہور سوز خوان جناب قاسم علی نے اپنے ہمنوا کے ساتھ کی اور نوحہ خوانی الحاج اعجاز حسین نے کی۔

 

ان مجالس میں مظلومین و محرومین و مستضعفین عالم بالخصوص غزہ کے مظلومین کے حق میں دعائیں اور ظالموں کی نابودی، ساتھ ہی ملک عزیز ہندوستان کی سربلندی کے لئے دعائیں طلب ہوئیں۔

ای میل کریں