غزہ کی مزاحمت جاری و ساری

غزہ کی مزاحمت جاری و ساری

رائے الیوم نے حماس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

 

رائے الیوم نے اپنے ایک مضمون میں غاصبوں کے خلاف غزہ کی مزاحمت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اپنے تمام فوجی ہتھیاروں، حفاظتی خدمات اور اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی کے باوجود اپنے وزیراعظم کے مقرر کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ بنجمن نیتن یاہو ایک سال کے اندر فلسطینی مزاحمت پر قابو نہیں پا سکا ہے۔ مزاحمت بڑے وقار اور زور و شور سے لڑ رہی ہے اور غزہ میں صہیونی فوجیوں اور ان کے اہلکاروں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ وہ قابضین کو اپنے گھات میں پھنساتی ہے اور یہاں تک کہ غزہ سے صہیونی بستیوں کی طرف راکٹ بھی فائر کرتی ہے اور تل ابیب کو بھی نشانہ بناتی ہے۔

 

اس صورت حال نے صیہونی حکومت کے کمانڈروں اور نیتن یاہو کو مخمصے میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر جب سے نیتن یاہو کی اپوزیشن غزہ سے اس حکومت کے فوجیوں کے فوری انخلاء اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ نیتن یاہو کے مخالفین اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ وہ غزہ کی مزاحمت پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ صیہونی حکومت ابھی تک حماس کو تباہ کرنے سے بہت دور ہے۔ رائے الیوم نے مشرق وسطیٰ کے امور کے دو تجزیہ کاروں امینہ محفار و ناصر خضور کے حوالے سے کہا ہے کہ حماس اب بھی اپنی آپریشنل صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور پورے غزہ میں اسرائیلی افواج کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ حماس نے مغربی کنارے میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور حماس اب بھی فلسطین میں پوری طرح سرگرم جماعت ہے۔

 

ان دونوں تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی نصف جنگجو موجود ہیں۔ حماس اپنے آپ کو منظم کرچکی ہے اور اسرائیلی فوج حماس کو مکمل طور پر منظم ہونے سے روکنے کے لیے اپنے زمینی حملے جاری رکھے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ علاقوں میں لڑائی شدید ہے۔ مثال کے طور پر فروری اور ستمبر کے مہینوں میں "Netsarim" کے شمالی محور میں "ال زیتون" علاقے میں اسرائیلی فوج نے کئی حملے کیے ہیں۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ رفح میں اسرائیلی فوج کی جانب سے حماس کی رفح بریگیڈ کو تباہ کرنے کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد حماس نے رفح شہر کے مشرق میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ حماس کے مجاہد گوریلا وار اور چھاپہ مار جنگی حربے استعمال کر رہے ہیں، وہ اسرائیلی فوجیوں کے راستوں پر دھماکہ خیز مواد نصب کرکے گھات لگا کر حملے کرتے ہیں۔

 

رائے الیوم نے حماس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا۔ واشنگٹن پوسٹ اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے: حماس کے رہنماء "یحییٰ السنور" نے جنگ سے پہلے حماس کو ہتھیاروں کے حوالے سے بااختیار بنایا اور مکمل رازداری کے ساتھ ہزاروں لوگوں کی شرکت سے پیچیدہ کارروائیاں انجام دیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ برسوں کی خاموشی کے دوران حماس نے میزائلوں اور ہلکے ہتھیاروں کا ایک زبردست ہتھیار اور مالیاتی اور دفاعی نیٹ ورک بنایا ہے، جس نے اسے اسرائیلی فوج کی ضربوں کے مقابلے میں انتہائی استحکام بخشا ہے۔ غزہ کی سرنگیں اسرائیلی فوج کے لیے اب بھی سرپرائز ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ سرنگیں پانچ سو کلومیٹر تک لمبی ہیں، جو نیویارک کی سب وے سے بڑی ہیں۔ ان کی لمبائی تل ابیب سے جنوبی ترکی تک کے فاصلہ کے برابر ہے۔

 

صہیونی فوج کے 98ویں ڈویژن کے کمانڈر جنرل ڈین گلدوس نے حماس کی سرنگوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ سرنگوں کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے، جو شمال میں یزیر جنکشن سے شروع ہوتا ہے اور مصر کی سرحد یعنی رفح تک جاتا ہے۔ یہ تمام سرنگیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ رائے الیوم نے اپنے مضمون کے آخر میں سوال اٹھا‏ئے ہیں کہ ان پیشرفتوں کو دیکھتے ہوئے غزہ میں مزاحمت کب تک جاری رہ سکتی ہے؟ کیا نیتن یاہو اپنی شکست تسلیم کرنے سے پہلے جنگ کے خاتمے کا اعلان کریں گے؟ غزہ کے بارے میں مستقبل کا منظر نامہ کیا ہوگا۔؟

ای میل کریں