ترے روئے ماہ کے ہجر میں ہم اسیر سوز و گداز ہیں
کبھی صید سوز و گداز ہیں ، کبھی محو نغمہ و ساز ہیں
شب ہجر ہے کہ دراز تر، غم عشق ہے کہ شدیدتر
ترا ناز سارے جہان پر، ہم اسیر طوق نیاز ہیں
کسی روز رخ سے نقاب اٹھا ، کسی روز گیسوؤ رخ دکھا
لیے جان و سر کو ہتھیلی پر ترے درپہ اہل نیاز میں
کرے تو جو وعدہ دید ہی رہے وجد تا پس مرگ بھی
ہمیں جو بھی دیکھے وہ جان لے کہ یہ محو ساز و نواز ہیں
ترے کوچہ ہی میں پناہ ہے کبھی دل نے یہ بھی کہا نہیں
کبھی راہی رہ بتکدہ، کبھی رو، براہ حجاز ہیں
اسی خم سے ساقی دلستاں جو نہاں ہے دیدہ غیر سے
ملے کوئی جام ہمیں بھی تو ارے ہم بھی محرم راز ہیں