امام جواد ع کی کمسنی میں امامت

امام جواد ع کی کمسنی میں امامت

انسان کی عقل اور جسم کی بالیدگی کے دور کی کوئی خاص حد مقرر نہيں ہے کہ عمر کی کسی خاص حد تک پہنچ کر انسان کا جسم و جان حد کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اور اس میں کونسی ایسی رکاوٹ ہوسکتی ہے کہ خداوند قادر و حکیم خاص مصلحتوں کی بنا پر جسم و جان کے اس کمال کی عمر کو بعض لوگوں کے لئے کم کرے اور ان کے کمال کو چند برسوں میں خلاصہ کردے؟ انسانی برادری میں ـ ابتداء سے آج تک ـ تھے ایسے بہت سے افراد جو عمر کے لحاظ سے معمول کے قاعدے سے مستثنیٰ تھے اور خالق عالم کے فضل و کرم اور عنایت خاصہ کے سائے میں، چھوٹی عمر میں کسی امت کی پیشوائی اور رہبری کے مقام پر فائز ہوئے ہیں۔

امام جواد ع کی کمسنی میں امامت

انسان کی عقل اور جسم کی بالیدگی کے دور کی کوئی خاص حد مقرر نہيں ہے کہ عمر کی کسی خاص حد تک پہنچ کر انسان کا جسم و جان حد کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اور اس میں کونسی ایسی رکاوٹ ہوسکتی ہے کہ خداوند قادر و حکیم خاص مصلحتوں کی بنا پر جسم و جان کے اس کمال کی عمر کو بعض لوگوں کے لئے کم کرے اور ان کے کمال کو چند برسوں میں خلاصہ کردے؟ انسانی برادری میں ـ ابتداء سے آج تک ـ تھے ایسے بہت سے افراد جو عمر کے لحاظ سے معمول کے قاعدے سے مستثنیٰ تھے اور خالق عالم کے فضل و کرم اور عنایت خاصہ کے سائے میں، چھوٹی عمر میں کسی امت کی پیشوائی اور رہبری کے مقام پر فائز ہوئے ہیں۔

موضوع کے بہتر ادراک کے لئے ذیل میں اسی قسم کے کچھ استثنائات کی مثالیں اور مصادیق:

1۔ قرآن مجید میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیٰ نبینا و آلہ و علیہما السلام) کی نبوت کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور یہ کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی نبوت عطا ہوئی ہے؛ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:

"يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا؛ [1]

اے یحییٰ ! لو کتاب (قانون خداوندی) کو طاقت کے ساتھ اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں علم و حکمت عطا کیا"۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں "حکم" سے عقل و ہوش اور ذہنی و فکری کمال مراد ہے۔ اس نظریئے کی تائید اس جملے سے ہوتی ہے کہ "يا يَحْييٰ خُذِ الْكِتابَ بِقُوَّة"؛ کتاب دینا نبوت کی علامت ہے، اس صورت میں حکم سے بھی وہی مراد ہوگی۔

2۔ بچے کے تکلم اور بات کرنے کے لئے کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہے لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں ہی بول اٹھے اور اپنی والدہ حضرت مریم کا دفاع کیا جنہوں نے اللہ کی قدرت سے کسی مرد سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے بغیر بچے (حضرت عیسیٰ [علیہ السلام]) کو جنم دیا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے شدید تہمت و اہانت سے دوچار ہوئی تھیں۔ حضرت عیسیٰ نے معاندین کی ہرزہ سرائی کو منطق و برہان سے رد کیا جبکہ معمول کے مطابق اس سطح کے کلام سے بڑی عمر کے انسان ہی عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کو یوں نقل فرمایا ہے:

"قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا * وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا * وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّاً؛ [2]

عیسیٰ (علیہ السلام) کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ٭ اور مجھے برکت والا قرار دیا ہے جہاں بھی میں ہوں اور مجھے مامور کیا ہے نماز اور زکوٰة پر، جب تک کہ میں زندہ رہوں ٭ اور نیک سلوک رکھنے والا اپنی ماں کے ساتھ اور مجھے اس نے بدبخت (شقی) سرکش نہیں بنایا ہے"۔

ہم ان قرآنی گواہیوں سے اس بات کا ادراک کرلیتے ہیں کہ ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) سے پہلے بھی تھے کئی مردانِ الٰہی جو اللہ کی اس موہبت اور نعمت سے فیض یاب ہیں اور یہ مسئلہ ہمارے ائمۂ (علیہم السلام) تک منحصر نہيں ہے۔

اس سوال کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں

ائمہ کی حیات طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ـ خاص طور پر حضرت امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) کے زمانے میں بھی یہ سوال اٹھا اور اسی استدلال سے اس کا جواب دیا گیا۔ نمونے کے طور پر ہم یہاں تین روایات نقل کرتے ہیں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں:

1۔ امام رضا اور امام جواد (علیہما السلام) کے صحابی علی بن اسباط، کہتے ہیں: "ایک دن امام ابو جعفر الجواد (علیہ السلام) گھر سے باہر آئے تو میں آپؐ کے سر اور پاؤں کی طرف گھور کر دیکھنے لگا اس لئے کہ آپؑ کا چہرہ ذہن نشین کروں اور مصر لوٹ کر آپؑ کے عقیدتمندوں کو بتا دوں۔ [3]

بالکل اسی لمحے امامؑ ـ گویا میری سوچ کو پڑھ چکے تھے چنانچہ ـ میرے سامنے بیٹھ گئے اور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے علی بن اسباط! جو کام اللہ نے امامت کے سلسلے میں انجام دیا ہے بالکل اسی طرح ہے جو اس نے نبوت کے سلسلے میں انجام دیا ہے۔ خدائے متعال حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

"وَآتَيْناهُ الحُكْمَ صَبِيّاً؛ [4]

ہم نے یحییٰؐ کو بچپن میں ہی نبوت کا "حکم" [یا علم و حکمت اور پیشوائی کا عہدہ] دیا"۔

اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:

"وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْناهُ حُكْماً وَعِلْماً؛ [5]

اور جب وہ پورے طور پر جوان (بالغ) ہوئے ہم نے انہیں حکم (نبوت) اور علم عطا کیا"۔

نیز خدائے متعال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشا فرمایا ہے:

"وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوىٰ آتَيْناهُ حُكْماً وَ عِلْماً؛ [6]

اور جب وہ شباب (سن بلوغت) کی منزل تک پہنچے اور پورے قد و قامت پر آ گئے تو ہم نے انہیں حکم (نبوت) اور علم عطا کیا"۔

تو جیسا کہ ممکن ہے کہ خدائے متعال ایک شخص کو 40 سال کی عمر میں علم و حکمت عطا فرمائے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ وہی علم و حکمت دوسرے شخص کو بچپن کے ایام میں ہی عطا فرمائے۔ [7]

2۔ امام رضا (علیہ السلام) کے ایک صحابی کہتے ہیں: ہم خراسان میں امام رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے امامؑ سے دریافت کیا: میرے سید و سرور! خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے ہم کس سے رجوع کریں۔

فرمایا: میرے بیٹے ابوجعفر [امام جواد (علیہ السلام)] سے۔ [8]

سائل نے کہا: امام جواد (علیہ السلام) ابھی چھوٹے ہیں تو امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: خدائے بزرگ و برتر نے عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) کو ابوجعفر (علیہ السلام) سے بھی چھوٹی عمر میں رسول و پیغمبر و صاحب شریعت قرار دیا ہے۔ [9]

3۔ امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے ایک صحابی "معمر بن خلاد" سے فرمایا: "میں نے ابوجعفر کو اپنا مقام و منصب دیا اور انہیں اپنا جانشین قرار دیا؛ ہم ایسا خاندان ہیں کہ ہمارے چھوٹے ہمارے بڑوں سے ارث پاتے ہیں"۔ [10]

مناظرے کے دوران امامت کی نشانی

تیسری اسلامی صدی افکار و آراء کی معرکہ آرائی اور علم و دانش کی نشو و نما کا زمانہ تھا۔ نو سال یا نو سال سے کم عمر کے امام کی امامت نے اس عصر کے فقہاء اور متکلمین کو حیرت زدہ کردیا تھا لیکن مامون حقیقت سے آگاہ تھا چنانچہ اس نے سب کو امام جواد (علیہ السلام) کے ساتھ مناظرہ کرنے کی دعوت دی تا کہ حقیقت عیاں ہوجائے۔ اس بظاہر بچے کے ساتھ علماء اور دانشوروں کے مناظرات نے سانسوں کو سینوں میں حبس کر دیا اور زبانیں بند ہوگئیں۔ یہاں اس زمانے کے فقیہ یحییٰ بن اکثم کے ساتھ امامؑ کے مناظرے کی طرف توجہ فرمائیں:

یحییٰ نے امام جواد (علیہ السلام) سے اجازت مانگی اور امامؑ نے فرمایا: جو چاہو پوچھو۔

یحییٰ نے کہا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو مُحْرِم ہے (حج کے لئے احرام باندھ چکا ہے)، اور ایک حیوان کا شکار کرچکا ہے؟ [11]

امام جواد (علیہ السلام) نے فرمایا:

- کیا اس شخص نے حِلّ میں (حرم کی حدود سے باہر) شکار کیا ہے یا حرم کی حدود کے اندر؟

- کیا وہ احرام کی حالت میں شکار کے شرعی حکم سے آگاہ تھا یا نہيں؟

- اس نے حیوان کو ارادی طور پر ہلاک کر دیا ہے یا غیر ارادی طور پر؟

- یہ شخص چھوٹا (نابالغ) تھا یا بڑا (اور بالغ) تھا؟

- یہ شخص آزاد تھا یا غلام؟

- اس نے یہ کام پہلی بار کیا ہے یا اس سے قبل بھی یہ کام کرتا رہا ہے؟

- شکار پرندوں میں سے تھا یا چرندوں میں سے؟

- چھوٹے حیوانات میں سے تھا یا بڑے حیوانات میں سے؟

کیا وہ پھر بھی یہ کام کرنا چاہتا ہے یا اس سے پشیمان ہوچکا ہے؟

- اس نے شکار رات کے وقت کیا ہے یا دن کے وقت؟

- اس شخص نے احرام عمرہ کے لئے باندھا ہے یا حج کے لئے؟

یحییٰ بن اکثم امامؑ کی طرف سے اس مسئلے کی اتنی ساری فروعات پیش کرنے کی بنا پر حیرت و پریشانی سے دوچار ہؤا اور بے بسی اور شکست کے آثار اس کے چہرے سے نمودار ہوئے اور وہ شدید لکنت اور تتلاہٹ سے دوچار ہؤا، ااور حاضرین نے یحییٰ کی بے بسی کا بخوبی مشاہدہ کیا۔

مامون نے کہا: میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہؤا۔

مامون نے اس کے بعد اپنے اہل خاندان کی طرف دیکھا اور کہا: اب سمجھ گئے ہو اس حقیقت کو، جس کی تم مخالفت کررہے تھے؟ [12]

مُحرِم کے ہاتھوں مختلف حالات میں شکار کا حکم

مناظرے کے بعد مجلس میں مذاکرات اور مکالمات ہوئے، لوگ منشر ہوئے، سوائے خلیفہ کے اقارب اور اہل خاندان کے۔ مامون امامؑ سے مخاطب ہؤا اور کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، اچھی بات ہے کہ حرم میں شکار کی تمام فروعات کے احکام بھی بیان کریں تا کہ ہم بھی فیض حاصل کریں۔

امام جواد (علیہ السلام) نے فرمایا:

- اگر کوئی شخص حِلّ میں (حرم کی حدود سے باہر) شکار کرے اور شکار بڑے پرندوں میں سے ہو تو اس کا کفارہ ایک بکرا ہے۔ اور

- اگر حرم میں شکار کیا ہو تو کفارہ دو گنا ہوگا۔ اور

- اگر پرندے کے چوزے کو حرم کی حدود سے باہر شکار کردے تو اس کا کفارہ ایک بزغالہ (بھیڑ یا بکری کا بچہ) ہوگا جو تازہ شیرخواری کے دور سے خارج ہؤا ہے۔ اور

- اگر پرندے کے چوزے کو حرم میں ہلاک کردے تو اس کا کفارہ ایک بزغالہ اور اس چوزے کی قیمت، ہوگا۔

- اور اگر وہ حیوانات وحشی جانوروں میں سے ہو تو اگر وہ جانور گور خر (جنگلی گدھا) ہو تو اس کا کفارہ ایک بیل ہوگا؛ اور

- اگر اس نے شترمرغ کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک اونٹ ہوگا اور

- اگر ہرن ہو تو اس کا کفارہ ایک بکرا ہوگا اور

- اگر وہ ان میں ہر ایک کو حرم کی حدود میں ہلاک کردے تو کفارہ دوہرا ہوگا۔

اگر محرم ایسا کوئی عمل انجام دے کہ قربانی اس پر واجب ہوجائے تو اگر اس نے احرام حج کے لئے باندھا ہو تو

- قربانی منی' میں ذبح کرے گا اور

- اگر احرام عمرہ کے لئے ہو تو قربانی کو مکہ میں ذبح کرے گا۔

- محرم نے ـ خواہ شکار کے شرعی حکم سے آگاہ ہو خواہ آگاہ نہ ہو ـ کفارہ یکسان ہوگا؛ تا ہم

- اگر اس نے جانور کو ارادی طور پر ہلاک کیا ہو تو وہ نہ صرف کفارہ ادا کرے گا بلکہ گنہگار بھی ہوگا لیکن

- اگر اس کا عمل سہوی اور غیرارادی ہو تو گناہ سے مستثنیٰ ہوگا۔

- اگر محرم آزاد ہو تو وہ اپنا کفارہ خود ادا کرے گا لیکن اگر غلام ہو تو اس کا کفارہ مالک پر واجب ہوگا اور

- اگر وہ نابالغ ہو تو اس پر کفارہ نہ ہوگا لیکن اگر بالغ ہو کفارہ اس پر واجب ہے۔

- اگر محرم نے شکار کیا ہو اور اپنے عمل سے پشیمان ہو تو اس کو آخرت کے عذاب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اگر پشیمان نہ ہو تو اس کو قیامت میں بھی سزا ملے گی۔ [13]

اس مشکل بیان سے بچپن میں حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ایمان اور بچپن (یعنی پانچ یا چھ سال کی عمر) میں ہی حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی امامت پر ہونے والے اعتراضات کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے شرط یہ ہے کہ خاندان رسالت کا معمولی افراد سے قیاس و موازنہ نہ کرایا جائے۔ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس سلسلے میں فرمایا ہے:

"لايُقاسُ بِآل مُحَمّد مِنْ هذِهِ الأُمة أحَدٌ؛ [14]

کسی کا بھی آل محمد |سے قیاس نہيں کیا جاسکتا"۔ [15]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

حوالہ جات:


[1]۔ سورہ مریم، آیت 12۔

[2]۔ سورہ مریم، آیات 30-32۔

[3]۔ علی بن اسباط کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی مصر میں بھی شیعیان آل محمد |کی اچھی خاصی آبادی تھی۔

[4]۔ سورہ مریم، آیت 12۔

[5]۔ سورہ یوسف، آیت 22۔

[6]۔ سورہ قصص، آیت 14۔

[7]۔ الکلینی، محمد یعقوب الرازی، ج1، ص384 (باب حالات الأئمۃ فی السّنّ)۔

[8]۔ ابو جعفر امام جواد (علیہ السلام) کی کنیت ہے اور چونکہ امام محمد باقر (علیہ السلام) کی کنیت بھی ابوجعفر ہے چنانچہ امام جواد (علیہ السلام) کو ابوجعفر ثانی کہا جاتا ہے۔

[9]. الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الكافی، ج1، ص322-384۔

[10]۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد، الارشاد، ص319۔

[11]. شکار حالتِ احرام میں حاجی اور معتمر پر حرام ہے۔ فقہی احکام میں، حج کے احکام کافی پیچیدہ ہیں اسی وجہ سے یحییٰ بن اکثم نے امامؑ کے ساتھ مناظرہ کرتے ہوئے حج کے مسائل کو چھیڑا گو کہ وہ مناظرہ اس کی شکست پر منتج ہؤا اور اس زمانے سے ہی اس نے امامؑ کی دشمنی اپنے دل میں بسا لی جو آخر تک جاری رہی اور موذیانہ اقدامات پر منتج ہوئی۔

[12]۔ الشیخ المفید، الارشاد، ص321-319؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج50، ص75-76۔

[13]۔ الشیخ المفید، الإرشاد، ص322؛ الطبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، الاحتجاج على أہل اللجاج، ص246، اس حصے میں مرحوم علامہ مہدی پیشوائی بن شیخ علی قلی، کی کتاب "سیرہ پیشوایان" سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔

[14]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 2۔

[15]۔ کتاب راہنمائے حقیقت؛ پرسش و پاسخ پیرامون عقاید شیعہ (شیعہ عقائد کے سلسلے میں سوال و جواب)، شیخ جعفر بن محمد حسین سبحانی، تہران: مطبعۂ مشعر، سال اشاعت 1385 ہجری شمسی۔

ای میل کریں