تفسیر 'تسنیم' پر بین الاقوامی سیمینار کے منتظمین سے خطاب

تفسیر 'تسنیم' پر بین الاقوامی سیمینار کے منتظمین سے خطاب

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 22 فروری 2025 کو جلیل القدر عالم دین، مفسر قرآن اور فلسفی آیت اللہ جوادی آملی کی تفسیر تسنیم پر بین اقوامی سیمینار کے منتظمین سے خطاب کیا

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 22 فروری 2025 کو جلیل القدر عالم دین، مفسر قرآن اور فلسفی آیت اللہ جوادی آملی کی تفسیر تسنیم پر بین اقوامی سیمینار کے منتظمین سے خطاب کیا۔ (1)


خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم


آپ محترم حضرات کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس مفید تشریح کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو جناب آقائے اعرافی نے اور جناب آقائے سعید (جوادی) نے اس کتاب شریف کے تعلق سے پیش کی، ہمارے لئے مفید واقع ہوئی۔ اس کتاب کے تعارف میں جو کہا جانا چاہئے وہ یہی باتیں ہیں جو حضرات نے بیان کیں۔ اس سے زیادہ بیان کرنے کو کچھ نہیں ہے۔

 

میں دو تین باتیں عرض کروں گا۔ ایک بات خود آیت اللہ آقائے جوادی کے متعلق، ایک بات تفسیر تسنیم کے سلسلے میں اور ایک بات حوزہ علمیہ میں تفسیر قرآن کی ترویج کے بارے میں۔ علوم قرآنی سے الگ خود تفسیر قرآن کی ترویج۔

 

آیت اللہ آقائے جوادی کا جہاں تک تعلق ہے تو 'حوزہ علمیہ' ان کا مقروض ہے، آپ نے عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ انسان ایک چھوٹی سی جگہ سے تفسیر قرآن کا آغاز کرے اور چالیس سال اس کام کو جاری رکھے، یہ آسان نہیں ہے۔ یعنی انسان اگر سوچے تو اسے جو نظر آئے گا وہ ہے اس کام کے سلسلے میں مستقل مزاجی، تھکن کو قریب نہ آنے دینا، اسے جاری رکھنے کے سلسلے میں کسی شک و تردد میں نہ پڑنا! بلکہ شاید ممکنہ طور پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آیات سے محترم مفسر کا شغف اور انس بڑھتا گیا ہے، البتہ ہنوز اس پر نظر ڈالنے اور سمجھنے کا موقع مجھے نہیں ملا ہے، لیکن ممکنہ طور پر یہی ہوا ہوگا۔ تو یہ چیز اور یہ کہ انسان اس کام میں، قرآن پر کئے جانے والے کام میں شوق سے ڈوب جائے، اس کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ آپ سے آپ کی اسی تفسیر کے بارے میں گفتگو ہوئی تو خود وہ اس کام کے سلسلے میں وجد کی کیفیت میں تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ آج کے زمانے کی 'المیزان' (علامہ طباطبائی کی معروف تفسیر قرآن) ہے۔ جناب کا جملہ یہ تھا۔ کہہ رہے تھے کہ یہ المیزآن ہے، البتہ آج کے زمانے کے مطابق اور آج کے لئے۔ انسان جب نظر ڈالتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ لہذا ان کا کام واقعی بہت قیمتی ہے۔ ویسے علوم عقلیہ و نقلیہ کے میدانوں میں ان کی ساری علمی سرگرمیاں اہم اور قابل قدردانی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کام میرے اعتبار سے اس تفصیلی تفسیر قرآن سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ یعنی میری نظر میں ان کا یہ کام، فلسفے کے میدان میں ان کی خدمات سے، عرفان کے میدان میں ان کے کاموں سے اور ان کے فقہی کاموں سے زیادہ اہم اور بالاتر ہے۔

 

خداوند عالم ان شاء اللہ انہیں اجر دے، طول عمر عطا فرمائے اور وہ ہمت و حوصلہ جس کی مدد سے انہوں نے اس طویل مدت تک یہ کام انجام دیا ان شاء اللہ خداوند عالم اسے ان کے اندر قائم رکھے۔ شاید وہ اس سے رجوع ہوں، ایسا ہوتا ہے کہ انسان کبھی رجوع کرتا ہے اور کسی موضوع کے بارے میں اس کی رائے تبدیل ہوتی ہے، یا کسی چیز کا اضافہ کرنا چاہتا ہے، تو یہ ہمت و حوصلہ ان کے اندر باقی رہے۔

 

جہاں تک سوال ہے تفسیر تسنیم کا تو میری نظر میں یہ تفسیر شیعوں کے افتخارات میں سے ہے۔ تفسیر کا جو مخصوص مفہوم ہے اس پہلو سے یہ کام اس کتاب میں بنحو احسن انجام پایا ہے۔ یعنی آیت کے پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ مصنف کی فکری توانائی نے مدد کی کہ آیتوں کے بعض ظریف، لطیف اور آسانی سے سمجھ میں نہ آنے والے مفاہیم بھی سمجھ میں آ جائیں۔ مجھے ویسے زیادہ تو موقع نہیں ملا کہ اس تفسیر کا مطالعہ کروں۔ البتہ کبھی کبھی رجوع کیا۔ ہاں گزشتہ شب اور آج میں نے ذہن کو آمادہ کرنے کے لئے کہا کہ ایک جلد مجھے لاکر دیں کہ ایک نظر ڈال لوں۔ واقعی ایسے قابل مطالعہ نکات سے مملو ہے جنہیں نظر انداز بھی کیا جا سکتا تھا۔ مثلا «رؤیا» خواب کیا ہے۔ خواب کی حقیقت کیا ہے۔ وہی روش جو المیزان میں علامہ طباطبائی کی ہے، فلسفیانہ بحث یا سماجی بحث کے عنوان سے۔ یہ چیز اس عظیم تفسیر میں بہت بڑی سطح پر پھیلی ہوئی ہے۔ یعنی اگر فرض کیجئے کہ وہ کام جو تفسیر المیزان کے انداز میں انجام دیا گیا، وہ بحثیں جو تفسیر آیت سے الگ ہیں اگر انہیں اس کتاب سے نکال کر الگ سے جمع کیا جائے تو وہ حصہ اپنے آپ میں انسائیکلوپیڈیا بن جائے گا۔ بحثوں اور مفاہیم کا ایک مجموعہ تیار ہو جائے گا جو الگ الگ موضوعات کے سلسلے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آیت اور ایک نکتہ۔

 

اس لئے کہ اس سے بخوبی استفادہ کیا جائے میری نظر میں ضرورت ہے ایک کامل فنی فہرست کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں کام ہوا ہے یا نہیں۔ تفسیر کے لئے فہرست کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس تفسیر کے لئے فنی فہرست کی ضرورت ہے۔ تاکہ موضوعات بھی بیان کر دئے جائیں اور ابجد کے مطابق ترتیب بھی ملحوظ رہے۔ تاکہ اگر کسی کو مثلا کسی موضوع کے بارے میں دیکھنا ہے کہ اس تفسیر میں اسے کس طرح بیان کیا گيا ہے تو آسانی سے اسے تلاش کر لے اور استفادہ کرے۔ بنابریں یہ تفسیر بھی ہے اور ایک اعتبار سے دائرۃ المعارف بھی ہے۔ اس طرح تفسیر تسنیم تشیع کے افتخارات میں سے ایک افتخار ہے، حوزے کے افتخارات میں سے ایک ہے۔ ہم اللہ کے شکر گزار ہیں کہ یہ کام انجام پایا۔

 

میں نے سنا ہے کہ بعض افراد تفسیر طولانی ہونے، 80 جلدوں پر مشتمل ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ اس تفسیر کو مختصر کیا جائے، اس کی تلخیص کی جائے۔ تو میری رائے یہ ہے کہ یہ کام نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی جائز ہے۔ یعنی یہ کام تفسیر کی جو ماہیت و تشخص ہے اسے ختم کر دے گا۔ تفسیر کی کتاب، خاص طور پر اتنی مفصل تفسیر، ایسی کتاب نہیں ہے جسے انسان شروع سے آخر تک پڑھے اور کہے کہ یہ تو اسّی جلد ہے، بہت طولانی ہے، ہم نہیں پڑھ سکتے۔ یہ ماخذ کتاب ہے۔ انسان کسی آیت کو سمجھنا چاہتا ہے، کسی سورے کو سمجھنا چاہتا ہے، کسی موضوع کو سمجھنا چاہتا ہے تو رجوع کرے گا۔ اب وہ 80 جلد ہو، 100 جلد ہو یا 180 جلد ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا تفسیر کو مختصر کرنا جائز نہیں ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ غالبا ہر آیت کے آغاز میں تفسیر کا جو خلاصہ ہے اسے الگ سے جمع کرنے کا پروگرام ہے تو ایک چیز تیار تو ہو جائے گی لیکن نہیں! میری نظر میں آقائے جوادی کے نام کو اور تفسیر تسنیم کے نام کو اس طرح کے کاموں سے ہلکا نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں تفسیر کو اسی شکل میں باقی رہنے دینا چاہئے۔ البتہ فہرست کی ضرورت ہے۔ فہرست کے بغیر یقینا اس کا استعمال کم ہو پائے گا۔ فہرست ہونا چاہئے۔ تو یہ بات تھی تسنیم کے بارے میں۔

 

جہاں تک موضوع ہے حوزے میں تفسیر قرآن کا تو واقعی حوزوں نے اس میدان میں کم کام کیا ہے۔ ہمارے مختلف حوزہ ہائے علمیہ نے اس میدان میں بڑی کوتاہیاں کی ہیں۔ آقائے طباطبائی مرحوم نے عظیم جہاد انجام دیا کہ معمول اور رائج نہ ہونے کے باوجود انہوں نے تفسیر کا درس شروع کیا اور یہی چیز حوزہ علمیہ میں قرآن اور مفاہیم قرآن وغیرہ پر خاص توجہ کا سرآغاز بنی۔ وہ مدرسہ حجتیہ میں تفسیر کا درس دیتے تھے۔ البتہ حقیر اس درس میں شامل نہیں ہو سکا، لیکن آقائے جوادی اس وقت مدرسہ حجتیہ میں تھے، میرے خیال سے وہ شریک ہوتے تھے۔ کچھ لوگ اس درس میں جاتے تھے۔ لیکن چھوٹا درس تھا، یعنی مدرسہ حجتیہ کی مسجد میں ایک جماعت، چالیس پچاس یا تیس چالیس افراد پر مشتمل تھی، وہاں موجود ہوتی تھی۔ مگر یہ بڑی اہم پہل تھی۔ آقائے طباطبائی رضوان اللہ علیہ نے بڑے عظیم کام کی شروعات کی اور بنیاد رکھی۔ ان سے پہلے حوزہ علمیہ قم میں یہ چیز نہیں تھی اور حوزہ علمیہ نجف میں تو اور بھی نہیں تھی۔ حوزہ علمیہ نجف کے سلسلے میں آپ جانتے ہیں کہ مرحوم بلاغی اور کچھ دیگر علماء کے یہاں بڑے اختصار سے یہ کام ہوا لیکن ایک حوزہ علمیہ سے جس چیز کی توقع ہوتی ہے کہ علوم اسلامیہ کو بیان کرے اس سے ہمارے حوزہ ہائے علمیہ کافی پیچھے تھے۔

 

اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ہمارے بڑے اور معروف علما بسا اوقات مفاہیم قرآنی سے کما حقہ آشنائی حاصل نہیں کر پاتے تھے۔ میں ایک بہت اچھے، فاضل اور صاحب استعداد عالم دین کو جانتا تھا، ہمارے جوانی کے زمانے کی بات ہے، جن کا کہنا تھا کہ ہم نجف میں تھے تو درس و بحث میں مصروف رہتے تھے، اپنے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ یہ لکھئے، وہ بیان کیجئے، اس پر تبادلہ خیال کیجئے، مباحثہ کیجئے، جائیے آئیے وغرہ۔ لیکن جب ہم نجف سے ایران آئے تو اچانک مجھے تفسیر صافی (2) ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تفسیر صافی پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ کتنی زبردست باتیں اس میں بیان کی گئی ہیں! اب آپ دیکھئے کہ تفسیر صافی میں کتنی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ ایک بڑے مجتہد جو برسوں نجف میں مشغول درس رہ چکے ہیں، وہ حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ تو ہمارے حوزہ ہائے علمیہ کی یہ حالت تھی۔

 

انقلاب سے پہلے قرآن کے سلسلے میں اس حقیر نے کچھ کام کیا۔ میں دینی طلبہ سے کہتا تھا کہ ہمارے حوزہ ہائے علمیہ کی حالت یہ ہے کہ "بدان ایّدک اللہ" (3) سے شروع کرتے ہیں تو اجتہاد کا اجازہ مل جانے تک ان سارے برسوں میں اگر ہم چاہیں تو ایک بار بھی ہمیں یہ ضرورت محسوس نہ ہو کہ طاق سے قرآن اٹھائیں اور اس پر نظر ڈالیں! یعنی ہمارے ان دروس کا قرآن سے کوئی سروکار ہی نہیں رہتا۔ بس اسی حد تک جو ادبیات کی کتابوں میں، مغنی میں یا سیوطی وغیرہ میں چند آیتیں ہیں۔ ورنہ نہ تو ہماری فقہ میں، نہ ادبیات میں، نہ اصول فقہ کی تحقیق میں، کہیں بھی ہمیں یہ ضرورت نہیں پیش آتی کہ اٹھیں اور قرآن اٹھائیں، اس پے نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ مثلا اس موضوع کے بارے میں قرآن میں کون سی آیت ہے یا قرآن نے کیا کہا ہے! یہ حوزہ علمیہ کا نقص ہے۔

 

اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جناب نے (4) بتایا کہ حوزہ علمیہ میں تفسیر کے 200 درس ہو رہے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ یہ بہت اچھا ہے۔ یعنی ایک مژدگانی ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس وقت حوزہ علمیہ قم میں تفسیر کے 200 درس ہو رہے ہیں۔ بہرحال یہ کوشش کیجئے کہ تفسیر اور درس تفسیر سے رجوع ایک دائمی کلچر میں تبدیل ہو جائے۔ اسے نقص نہ سمجھا جائے۔ یعنی فقہ کا بڑا عالم یا دوسرے مرحلے میں فلسفے کا بڑا عالم ہونا ایک فخر کی بات ہے تو تفسیر کے بھی بڑے عالم ہوں۔ کم سے کم اس طرح جیسے فقہ کے علما ہیں۔ اب چونکہ انسان کی زندگی کا نظام فقہ پر موقوف ہے تو فقہ کے بارے میں انسان کو ذرا زیادہ احترام سے بات کرنی ہوگی، لیکن مثلا اصول فقہ کی جو یہ طوالت و تفصیل ہے، اگر کوئی شخص اصول فقہ کا بڑا عالم ہے تو حوزہ ہائے علمیہ میں اس کے بارے میں ایک سوچ اور ذہنیت ہوتی ہے، کیا تفسیر پر عبور رکھنے والے اور آیات قرآن، معانی آیات، مفاہیم آیات اور اشارات آیات پر ملکہ رکھنے والے عالم دین کا بھی حوزہ علمیہ میں وہی مقام و مرتبہ ہے؟ اس کی اصلاح کرنا چاہئے۔

 

برادران اہل سنت کے یہاں قرآن سے رجوع کا کلچر اچھا ہے لیکن وہ بھی تفسیر سے زیادہ یا تفسیر کی ہی مقدار میں فروعی اور ذیلی مسائل میں مصروف رہتے ہیں۔ تلاوت قرآن کے دوران 'وقف اور ابتدا' کے بارے میں کتنی کتابیں ہیں! یا مثلا تجوید کے موضوع پر کتنی کتابیں ہیں! قرآنی موضوعات یہ نہیں ہیں۔ قرآن کا مسئلہ آیات کریمہ کو سمجھنے کا ہے۔ واقعی اس میدان میں ہم نے کوتاہی برتی ہے۔ شیعوں کے یہاں یہ کام بہت کم ہوا ہے۔ بحمد اللہ آج اس کام کا احیاء ہوا۔ ہم اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اس دور میں تفسیر تسنیم منصہ ظہور پر آئی اور باعث افتخار بنی۔ تفسیر تسنیم کو ہاتھ میں اٹھاکر دنیائے اسلام کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس یہ ہے۔

 

ایک کام تفسیر کے عربی ترجمے کا ہے۔ یہ بھی ضروری کام ہے۔ اصلی کتاب فارسی میں لکھی گئی تو اس کا ایک معقول ہدف ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، اچھا ہے کہ دنیائے اسلام آج عربی زبان سے زیادہ آشنائی رکھتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس ایک اچھی کتاب ہو اور ہمیں توقع ہو کہ دنیائے اسلام اسے سمجھے، جانے، پہچانے، لیکن وہ عربی میں نہ ہو۔ یہ توقع درست نہیں ہے۔ میری نظر میں ایک ٹیم، ایک عربی داں جماعت جس کی مادری زبان عربی ہو اور عربی ادبیات پر عبور بھی رکھتی ہو، بیٹھ کر اس کتاب کو بتدریج، اگر اب تک نہیں ہوا ہے تو اس کا عربی ترجمہ کرے۔ بہت اچھی بات ہے۔ (5)، جی ہاں، یہ کام ضروری ہے۔ اگر یہ کام اچھے انداز میں انجام پائے۔ یعنی اس کی زبان عربی زبان قارئین کے لئے اچھی ہو اور روانی کے اعتبار سے وہ خصوصیات اس میں ہوں جو لازمی ہیں تو تفسیر وسیع پیمانے پر لوگوں تک پہنچے گی۔ یعنی عرب علاقوں میں یہ بہت جلدی پھیل جائے گی۔ صاحب فکر افراد ہیں جو اس سے استفادہ کریں گے۔

 

مرحوم آقائے شیخ ہادی فضلی رحمۃ اللہ علیہ نے جو سعودی عرب کے علما میں تھے، مجھے بتایا کہ اب حجاز کی یونیورسٹیوں میں، حجاز کے بڑے اساتذہ شیعہ فقہی کتابیں حاصل کرکے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔  یعنی یہی جو چھپ چکی ہیں۔ وہ ان علمی کاموں پر جو انجام پا چکے ہیں، جو کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن کی تصحیح ہو چکی ہو، ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ چونکہ کتاب ریاض (6) کی جو پرانی طباعت تھی اسے کھول کر پڑھنے میں کسی کی دلچسپی نہیں تھی لیکن جب ریاض کو نئے انداز میں چھاپا گيا یا جواہر (7) کو مثال کے طور پر اس شکل میں لے آئے تو ظاہر ہے کہ لوگوں میں رغبت پیدا ہوگی۔ وہ بتا رہے تھے کہ لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے اور شیعوں کے سلسلے میں اعتقاد پیدا ہوا ہے۔ مرحوم آقائے فضلی یونیورسٹی میں بھی درس دیتے تھے، وہ بتا رہے تھے کہ اہل تسنن کے بڑے علما، اس جگہ جہاں وہ پڑھاتے تھے، شرقیہ علاقے کی یونیورسٹیوں کی بات ہے، سب کے سب بہت متاثر ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی ثابت ہوگی۔ یعنی اگر اچھا ترجمہ ہو گیا اور ان تک پہنچا تو وہ اسے چھوڑیں گے نہیں۔ یعنی لوگوں میں پھیل جائے گی اور ساری دنیائے اسلام میں پہنچ جائے گی۔

 

خداوند عالم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آقائے جوادی دام ظلہ العالی کو یہ  توفیق عطا کی کہ جناب نے یہ علمی کام انجام دیا۔ آیت اللہ آقائے جوادی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ زحمت اٹھائی، آپ سب کا بھی شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس علمی کام پر توجہ دی، اس پر تحقیق کی اور کام کیا۔ امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ آپ سب اجر و ثواب دنیوی و اخروی حاصل کریں۔ ہمارا سلام اور تشکر جناب کی خدمت میں پیش کیجئے۔

 

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

۱) یہ سیمینار 24 فروری 2025 کو قم کے مدرسہ عالی دار الشفاء میں منعقد ہونا ہے جس میں 80 جلدوں پر مشتمل تفسیر تسنیم کی رونمائی عمل میں آئے گی۔ رہبر انقلاب سے ملاقات میں پہلے پورے ملک کے حوزہ ہائے علمیہ کے مدیر حجت الاسلام و المسلمین علی رضا اعرافی، وحیانی علوم فاؤنڈیشن کے سربراہ اور سیمینار کی منتظمہ کونسل کے رکن حجت الاسلام و المسلمین سعید جوادی آملی نے رپورٹیں پیش کیں۔

۲) تصنیف ملا محسن فیض کاشانی

۳) حوزہ علمیہ کی ابتدائی کتاب «جامع‌المقدّمات» کی ابتدائی عبارت۔ دینی طلبہ ابتدا میں یہ کتاب پڑھتے ہیں۔

۴) ملک کے حوزہ ہائے علمیہ کے مدیر

۵) حاضرین میں سے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ تیسویں جلد تک عربی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔

۶) ریاض‌ المسائل فی بیان الاحکام بالدلائل، مصنف مرحوم سید علی طباطبائی

۷) جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، مصنف مرحوم محمّد حسن نجفی

ای میل کریں