تحریر: مریم سادات اجوادانی
ہر سال آٹھ شوال کا دن مسلمانوں کے دلوں میں ایک گہرے زخم کو تازہ کرتا ہے۔ جنت البقیع کی تباہی کا زخم۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں نہ صرف چار معصوم ائمہ بلکہ اسلام کے بہت سے بزرگ اور برگزیدہ صحابہ بھی دفن ہیں۔ آج سے 100 سال پہلے اسی دن آل سعود کی قیادت میں وہابیوں نے شہر کے تمام تاریخی قبرستانوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ اس سے پہلے بھی 1220 قمری میں وہابی فورسز کی طرف سے تباہی کی ایک لہر آئی تھی، لیکن عثمانی سلطنت نے حجاز کی حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد عمارتوں کی تعمیر نو کر دی تھی۔ آل سعود نے دوبارہ اقتدار سنبھال کر سعودی عرب پر بادشاہت قائم کی دی اور محمد بن عبدالوہاب کی انتہاء پسند تعلیمات سے متاثر ہو کر، قبور کی عزت و احترام کو "شرعاً" حرام قرار دیا تھا، انہوں نے اس نظریئے کے تحت ان تمام اسلامی تاریخی یادگاروں کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا، جو کسی نہ کسی حوالے سے زیارت گاہ سمجھے جاتے تھے۔ جنت البقیع کا قبرستان بھی اس وہابی سوچ کا شکار ہوگیا۔
وہابیوں کے عقیدے کے مطابق قبروں، گنبدوں اور درگاہوں کی علامتیں خالص وحدت سے منحرف کرتی ہیں اور یہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ انتہاء پسندی حجاز کے بہت سے مقدس مقامات کو تباہ کرنے کا سبب بنی۔ لیکن بقیع کو ایک اور حوالے سے بھی نشانہ بنایا گیا تھا، کیونکہ اس میں چار شیعہ امام، امام حسن مجتبیٰ، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی مقدس مزارات موجود تھے۔ اس تباہی کے بعد مدینہ اور مکہ میں زیارت کا ماحول بدل گیا۔ تاریخی قبرستانوں میں نہ تو کوئی گنبد اور نہ ہی کوئی سایہ تھا اور نہ ہی پہچان کے لئے کوئی علامت رہنے دی گئی۔ زائرین کو خاموشی اور پابندی کی ایک دیوار کا سامنا کرنا پڑا۔ مسجد نبوی اور دیگر قبرستانوں کے ارد گرد سعودی اہلکاروں کی موجودگی نہ صرف نماز اور زیارت کو روکتی ہے بلکہ بعض اوقات زائرین کے ساتھ جسمانی تصادم کا باعث بھی بنتی ہے۔
بقیع کی تباہی سے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ایران، عراق، پاکستان، ہندوستان، لبنان، ترکی اور دیگر ممالک میں علماء اور مفکرین نے اس سانحے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایران میں، مذہبی اخبارات اور مجلات نے بیانات اور عزاداری کی مجالس میں بقیع کی تباہی کی مذمت کی۔ نجف اشرف، قم، مشہد اور دیگر علمی حوزوں کے علماء نے فتاویٰ اور بیانات شائع کرکے وہابیت کی شدید مذمت کی۔ پاکستان اور بھارت میں اس اقدام کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لبنان میں سید عبد الحسین شرف الدین اور امام موسیٰ صدر جیسی شخصیات نے بقیع کو مظلومیت کی علامت قرار دیا۔ یہ احتجاج سفارتی سطح تک پہنچ گیا ہے۔ ایران کی قومی اسمبلی نے سعودی حکام سے بات چیت کے لیے نمائندے بھیجے۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں حکومت نے شیعہ علماء اور اہلسنت کے اجلاسوں کی میزبانی کی، تاکہ ایک مربوط ردعمل ظاہر کیا جا سکے۔
اس سال حج ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا تھا، تاکہ زائرین کی حفاظت اور حرمین شریفین کی حرمت کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس درمیان، علامہ سید محمد حسین حائری اصفہانی کا کردار ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ شام کے دورے پر سعودی عرب کے سفیر سے ملے۔ سعودی سفیر نے ان کو حج کی دعوت دی اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ شہر زائرین کے لیے محفوظ ہے۔ آیت اللہ اصفہانی نے دعوت قبول کی، لیکن ایک خاص شرط کے ساتھ کہ جنت البقیع کی قبر کی حرمت کو بحال کیا جائے۔ سعودی فرمانروا نے وعدہ کیا کہ جو کچھ بھی آپ چاہتے ہیں، وہ کیا جائے گا۔ صاحب الفصول نے فقہی طور پر مطالبہ کیا کہ کم از کم آئمہ کی قبروں کی جگہ پر نشان لگا دیا جائے۔ سعودی بادشاہ نے اس وقت نہ صرف قبول کیا اور بلکہ تحریری معاہدہ کیا۔
اس کے بعد آيت اللہ اصفہانی ایرانی اور عراقی علماء کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر چاروں اماموں کی قبروں کے مقامات کا تعین کیا اور ان کے ارد گرد سادہ پتھروں سے نشانات لگائے۔ یہ وہی علامات ہیں، جو آج بھی بقیع میں نظر آتی ہیں۔ کئی سال بعد 1330 شمسی 74 برس پہلے سید محمد تقی آل احمد طالقانی کی سربراہی میں ایران سے ایک وفد نے سعودی بادشاہ سے ملاقات کی اور قبر کے اوپر سایبان بنانے کی تجویز پیش کی۔ بادشاہ نے اس منصوبے کی منظوری دی، لیکن اس پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوا۔ وہابیوں کی سوچ نے تعمیر نو اور یہاں تک کہ آزادانہ زیارت کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
آج ایک صدی کے بعد بھی آئمہ (ع) کی قبریں ویران و بے سائبان ہیں۔ شیعوں کے لئے آزادانہ طور پر حج کرنے نیز جنت البقیع کی زیارت کے حوالے سے سخت حفاظتی پابندیاں عائد ہیں۔ عزاداری تو ایک طرف جنت البقیع میں خواتین کے داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ بہرحال شیعہ و سنی اب بھی بقیع میں ایک خوبصورت زیارت گاہ بنانے کی امید رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ حالیہ برسوں میں ایران کے حج اور زیارت کے ادارے نے بقیع کمیٹی تشکیل دے کر اور بقیع کی بحالی کے ماڈل کو ڈیزائن کرکے اس تاریخی مطالبہ کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔