جماران کے رپورٹر کے مطابق، ماہ ذی الحجہ کی ساتویں تاریخ، سال 114 ہجری قمری، تاریخ اسلام میں ایک تلخ واقعہ رونما ہوا؛ ایک ایسا واقعہ جس میں امت کی ہدایت کے نوروں میں سے ایک، یعنی امام محمد باقر علیہ السلام، شہید ہوئے۔ یہ جرم اموی خلفاء میں سے ایک، ہشام بن عبدالملک کے دور خلافت میں پیش آیا۔ اہل بیت علیہم السلام کے دشمن، جو ہمیشہ ہدایت کے چراغ اور حق کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش میں تھے، آخرکار ایک پہلے سے تیار کردہ سازش کے ذریعے اس عظیم امام کو شہید کر دیا۔
کتاب "امام باقر علیہ السلام کی زندگی پر ایک نظر" (نگاہی بر زندگی امام باقر علیہ السلام) میں آنحضرت کی بابرکت زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے؛ جن میں مدینہ میں ان سے شیعوں کے ایک گروہ کی ملاقات کی ایک قیمتی روایت بھی شامل ہے۔ شیعوں کا یہ گروہ جو سرزمین حجاز سے عراق کا سفر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اپنے راستے میں مدینہ منورہ پہنچا اور امام محمد باقر علیہ السلام کے گرانقدر ارشادات سے مستفید ہونے اور ان سے ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے حضرت سے درخواست کی کہ وہ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیں تاکہ اس عظیم امام کی رہنمائی سے وہ اپنے راستے کو مزید بصیرت کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔
امام باقر علیہ السلام نے اس درخواست کے جواب میں ایسی حکیمانہ، گہری اور پرمغز نصیحتیں بیان فرمائیں کہ ان میں سے ہر ایک نصیحت ہر زمانے اور ہر جگہ کے ہر شیعہ کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے:
امام نے فرمایا: "تمہارے طاقتوروں کو تمہارے کمزوروں کی مدد کرنی چاہیے۔"
اس مختصر جملے میں، اسلامی معاشرے میں تعاون اور باہمی مدد کے عظیم اصول کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ امام باقر علیہ السلام اس بیان سے شیعوں کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کی سماجی ذمہ داری رکھتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں طاقتور افراد کمزوروں کے مسائل سے لاتعلق ہوں، ایک کمزور اور بے روح معاشرہ ہوگا۔ کمزوروں کی مدد نہ صرف ایک اخلاقی فریضہ ہے، بلکہ ایک دینی اور انسانی فریضہ بھی ہے جو امام کے کلام میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔
"تمہارے دولت مندوں کو تمہارے غریبوں (مستمندوں) کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے۔"
یہ نصیحت اسلامی معاشرے میں معاشرتی انصاف کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ امام علیہ السلام اس قول سے بخشش اور سخاوت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ غریبوں کی مدد اور دستگیری نہ صرف سماجی تعلقات کو مضبوط کرتی ہے، بلکہ اللہ کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں دولت مند غریبوں کا خیال رکھیں، ایک پائیدار، صحت مند اور الٰہی اقدار پر مبنی معاشرہ ہوگا۔
"ہمارے راز اور امر (امامت) کو ظاہر نہ کرو؛ کیونکہ یہ تقیہ کا دور تھا اور تشیع اس وقت کے طاغوتوں کے شدید خطرے میں تھی۔"
اس جملے میں، امام باقر علیہ السلام اس وقت کے حساس سیاسی و سماجی حالات کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ اموی خلافت کا دور، تشیع کی تاریخ کے مشکل ترین ادوار میں سے ایک تھا۔ وقت کے طاغوت پوری طاقت سے تشیع کو تباہ کرنے اور اہل بیت علیہم السلام کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش میں تھے۔ لہٰذا امام نے شیعوں کو نصیحت کی کہ اس دور میں تقیہ کے تقاضے کے مطابق عمل کریں اور امامت سے متعلق معاملات کو ظاہر کرنے سے گریز کریں تاکہ اپنی اور دیگر شیعوں کی جان و مال کی حفاظت ہو سکے۔
"جب تم تک ہماری کوئی حدیث پہنچے تو غور و فکر کرو، اگر تمہیں قرآن سے اس کی ایک یا دو دلیلیں مل جائیں تو اسے قبول کر لو، ورنہ اس کے بارے میں توقف کرو؛ پھر مناسب وقت پر ہم سے پوچھو تاکہ اس کی صحت تم پر واضح ہو جائے۔"
اس حصے میں، امام علیہ السلام اپنے پیروکاروں کو ہدایت دیتے ہیں کہ احادیث و روایات کا سامنا کرتے وقت غور و فکر اور دقت کرنے والے ہوں۔ امام کا یہ قول اہل بیت کے علمی اور اجتہادی طریقے کو بیان کرتا ہے جو اپنے پیروکاروں کو روایات میں تحقیق و بررسی کی دعوت دیتے ہیں، نہ کہ اندھی تقلید کی۔ یہ اصول مذہب تشیع میں عقلیت پسندی کی بنیاد شمار ہوتا ہے۔ نیز امام مشکوک احادیث سے نمٹنے کا طریقہ بھی بیان فرماتے ہیں: اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کی جائے، اور اگر نہ ہو تو امام سے پوچھنے تک توقف کرنا چاہیے، نہ کہ قطعی طور پر رد کرنا۔
"جان لو کہ تم میں سے جو شخص اس امر (ظہور قائم آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کرے گا، اس کا اجر روزہ دار، شب زندہ دار کی مانند ہے، اور جو شخص ہمارے قائم تک پہنچے گا اور ان کے ہمراہ دشمن سے جنگ کرے گا اور ہمارے دشمن کو قتل کرے گا، اسے بیس شہیدوں کا اجر ملے گا، اور جو شخص اس راستے میں قتل ہو جائے گا، اسے پچیس شہیدوں کا اجر ملے گا۔" (1)
امام باقر علیہ السلام کے نورانی کلام کا یہ حصہ اس روایت کا سب سے زیادہ امید افزا حصہ ہے۔ امام اپنے شیعوں کو بشارت دیتے ہیں کہ انتظارِ فرج اور ظہور ایک عبادت اور بڑی فضیلت والا عمل ہے اور انتظار کرنے والے اللہ کے نزدیک بلند مقام رکھتے ہیں۔ امام حتیٰ کہ ان لوگوں کے لیے جو قائم آل محمد (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے ملحق ہوں گے اور ان کی راہ میں جنگ کریں گے، ایک عظیم اور توقع سے بڑھ کر اجر ذکر کرتے ہیں۔ یہ اجر امام زمان کے ہمراہ جہاد کی عظیم حیثیت اور نیز حقیقی منتظرین کے مقام و مرتبے کو ظاہر کرتے ہیں۔
آخر میں، یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ گرانقدر روایت جو کتاب اصول کافی، جلد دوم، صفحہ 222 میں نقل ہوئی ہے، اور کتاب "امام باقر علیہ السلام کی زندگی پر ایک نظر"، صفحہ 130 میں بھی مذکور ہے، شیعی معارف اور اسلامی اخلاقیات کا خزانہ ہے، اور اس کا ہر نکتہ ہر دور کے شیعوں کے لیے رہنما اصول بن سکتا ہے۔