ترکی کیطرف جلاوطنی

ترکی کیطرف جلاوطنی

شاہ اپنے ہمیشہ کے غرور و تکبر کی وجہ سے اس خیال میں کہ قتل و غارت ، قید وبند اور عدالتی کاروائیوں کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹ بننے والا جذبۂ مقابلہ اور استقامت ختم ہو چکاہے ، امریکی دباؤ کے تحت وہائٹ ہاؤس سے املا شدہ اصلاحات نافذ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکا تها ۔ ان اصلاحات کا حتمی نتیجہ ، اقتصاد ، فوج اور شاہی حکومت کے بنیادی اداروں میں امریکہ اور اس کے پٹهوؤں کا وسیع پیمانے پر اور براہ راست اثر و رسوخ تها ۔ لہذا ایران میں امریکی فورسز کی تعیناتی ، انکی سکیوریٹی کی ضمانت اور مطلق العنانیت کیلئے عدالتی اور قانونی رکاوٹوں کو ہٹانا بنیادی ضرورت تهی ۔ اس مقصد کیلئے کیپچو لائزیشن (امریکی باشندوں کے سیاسی اور سفارتی تحفظ ) کے قانون تجدید حکومت کے دستور العمل میں شا مل کی گئی ۔ سینٹ اور مجلس شورائے ملی پر مشتمل چاپلوس پارلیمنٹ کے ذریعے کیپچو لائزیشن بل کی منظوری ایران کی نیم مردہ آزادی کے پیکر پر لگایا جانے والا آخری وار تهی ۔ جہادی عناصر کی سختی سے سرکوبی ، قید بند اور انکی ملک بدری یا شہر بدری کی سزاوؤں اور شاہی سرخ فیتے کی حکومت سے عوام کا دم گهٹ رہاتها اسی لئے کسی شخص میں حکو مت کی مخالفت کی جرأت نہیں تهی ، لیکن ان حالات میں بهی امام اپنی تاریخی ذمہ د اری نبهانے کے مصمم عز م وارادے کے ساته تحریک چلانے کیلئے اٹه کهڑے ہوئے تهے۔

۲۶ اکتوبر شاہ کی سالگرہ کا دن تها ۔ اس دن کثیر رقوم خرچ کرکے ہر سال خوشامدی جشن کا اہتمام کیا جاتا تها۔ امام خمینیؒ نے اس دن کو ( شاہ کے جرائم ) فاش کرنے کیلئے انتخاب کرکے خطوط اور نمائندہ وفود کے زریعے مختلف شہروں کے علمائے کرام کو اس فیصلہ سے آگاہ کیا شاں امام خمینیؒ کو مرعوب کرنے اور اس دن کے موقع پر آپ ؒ کو خطاب سے روکنے کے لئے اپنا ایک نمایندہ قم بهیجا لیکن آپؒ نے شاہی ایلچی کے ساته ملاقات سے انکار کیا اور شاہ کا پیغام امام ؒ کے فرزند آیۃ اللہ حاج آقا مصطفی کو سنایاگیا ۔

امام ؒ نے شاہ کی دهمکیوں کی پروا کئے بغیر مقررہ دن کو قم اور دوسرے شہروں کے علمائے کرام اور عوام کے جم غفیر سے اہم تاریخی خطاب فرمایا :’’ اس خطاب کا موضوع ایران کی اسلامی مملکت کے معاملات میں امریکی حکومت کی غیر قانونی مداخلات کی مذمت اور شاہ کی غداریوں کو بے نقاب کرناتها ۔ امام ؒ نے غیر معمولی درشتی کے ساته ان جملات سے اپنے خطاب کا آغاز کیا ہماری عزت پامال ہوگئی ایران کی عظمت مٹ گئی انہوں نے ایرنی فوج کی شان وشوکت کو پاوں تلے روند ڈالاانہوں نے مجلس میں ایک قانونی بل پیش کیا ہے جس کی رو سے ہمیں دنیا معاہدے سے مربوط کیا جا ئے گا ۔ ۔۔ یعنی امریکہ کے تمام فوجی مشیر اور ان کے خاندان۔ امریکہ کا ٹیکنکل عملہ۔ دفتری ملا زمین اور تمام نوکر چاکر یہ سب اگرا یران میں کسی جرم کا ارتکاب کریں گے تو محفوظ ہوں گے ۔۔۔صاحب! میں تجهے خطرے سے آگاہ کرتا ہوں ، ایرانی فوج کے جوانوں کے خطرے کی اطلاع دیتا ہوں ، ایران کے سیاسی لوگو! میں تمہیں خطرے سے آگاہ کرتا ہوں ۔۔۔ واللہ وہ شخص گناہگار ہے جو آواز نہیں اٹها تا ، صدا ئے احتجاج بلند نہیں کرتا ( ایسا نہ کرنے والا) گناہ کبیرہ کا مرتکب ہواہے، اے اسلام کے رہنماؤ ، اسلام خبر لو، اے علمائے نجف اسلام کی خبرلو، اے قم کے علما اسلام کی خبر لو‘‘ ۔

امام خمینیؒ نے اپنا یہ معروف جملہ اسی خطاب میں فرمایا تها : ’’ ۔۔۔۔ امریکہ ، برطانیہ سے بدتر ، برطانیہ امریکہ سے بدتر اور سوئیت یونین ان دونوں سے بدتر ہے ، یہ سب ایک دوسرے سے بدتر اور سب ایک دوسرے سے ناپاک تر ہیں ، لیکن آج ہمارا واسطہ ان خبیثوں سے ہے ، امریکہ سے ہے ، امریکی صدر کوجان لینا چاہئے کہ ہماری قوم کے نزدیک وہ دنیا کا سب سے زیادہ قابل نفرت شخص۔۔۔ ہے ہماری ساری مصیبتیں اسی امریکہ کی وجہ سے ہیں ، ہماری مصیبت اس اسرائیل کی وجہ سے ، اسرائیل بهی امریکہ کا حصّہ ہے [1] ‘‘

۲۶ اکتوبر1964 کو ہی امام خمینیؒ نے ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں آپؒ نے لکها تها : ’’ دنیا کو یہ جان لینا چاہئے کہ جن مصیبتوں سے ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام دچارہیں وہ سب اغیار کی طرف سے پیدا کی گئیں ہیں ، یہ مصیبتیں امریکہ کی وجہ سے پیداہوئی ہیں ۔ مسلم قوام عام طورپر اغیار سے اور خاص طورپر امریکہ سے نفر کرتی ہیں ۔۔ یہ امریکہ ہی تو ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے ، یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو تقویت دے رہاہے تاکہ وہ مسلمان عربوں کو گهر سے بے گهر کر دے [2]

امام ؒ کی جانب سے کیپچو لائزیشن بل سے پردہ اٹهانے کی کاروائی نے  ااکتوبر ۱۹۶۴ میں ایران کو ایک نئی تحریک کی دہلیز پر لاکر کهڑا کیا ، لیکن شاہی حکومت اس سے گذشتہ سال۱۵ خرداد کی تحریک کو کچلنے کے تجربے کے بل بوتے پر تیزی سے حرکت میں آگئی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دوران امام خمینیؒ کے انقلاب کی حمایت کرنے والے ممتاز دینی اور سیاسی رہنما یا تو زندانوں میں مقید ہوچکے تهے یا شہر بدری اور ملک بدری کی سزائیں کاٹ رہے تهے ۔ بعض مراجع تقلید اور بلند پایہ علماء جنہوں نے 5 جون کی تحریک میں جوش خروش کے ساته حصّہ لیا تها ، اب آہستہ آہستہ مصلحت اندیشانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے خاموشی کے ساته میدان چهوڑ کر جاچکے تهے جو ۱۹۷۹ ء  میں اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اسی حال میں رہے ؛انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شائع ہونے والی دستاویزات کے مطابق آقائے شریعتمداری جیسے لوگ اس وقت  ۱۹۶۴ ء میں  اپنے مقام اور اثر و رسوخ سے غلط استفادہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو خاموش رہنے اور امام کی دعوت کی حمایت چهوڑنے پر مجبور کرتے رہے ۔ شاہی حکومت کو اصل خطرہ امام خمینیؒ کے وجود سے تها ، جنہیں وہ کسی طریقے سے بهی خاموش نہ کرسکی تهی اور اب وہ ایرانی قوم کے جہادی عناصر کے ہر دلعزیز اور جانے پہچانے قائد کی حیثیت سے عوامی صفوں میں ہیجان پیدا کرنے کا سبب بن چکے تهے۔ اسکے علاوہ ان کے مقلدوں کی کثیر تعداد پائی جاتی تهی ، شاہی حکومت کو ماضی کا تلخ تجربہ تها کہ امام ؒ کی گرفتاری سے ملک کے اندر حکومت کوسو قسم کے مشکلات سے روبرو ہونا پڑے گا ۔ آپؒ کو جان سے ماردینے کی صور ت میں بهی ملک کے اندر ایسی بغاوت جنم لے سکتی تهی جس پر قابو پانا مشکل تها لہذا آخر کار امام  ؒ کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔

۴ نومبر ۱۹۶۳ء  کی صبح ایک بار پهر تہران سے بهیجے  ہوئے مسلح کمانڈؤں نے قم میں امام ؒ کے دولتکدے کا محاصرہ کیا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امام ؒ کوگذشتہ سال کی طرح عین نماز تہجد کے وقت پر گرفتار کیا گیا ! امام ؒ کو گرفتار کرنے کے بعد سکیوریٹی فورسز نے آپ  ؒ کو تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر پہنچا دیا۔ جہاں سے پہلے سے ہی تیار ایک فوجی طیارے کے ذریعے سکیورٹی فورس اور فوج کی نگرانی میں آپؒ کو ( ترکی کے دارالحکومت ) انقرہ لے جا یا گیا ۔ اس دن شام کے اخبارات میں ساواک نے ملکی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کرنے کے الزام میں امام ؒ کی ملک بدری کی خبر شایع کی ۔ گهٹن کی فضا طاری ہونے کے باوجود ایک وسیع احتجاجی مہم شروع ہوئی جس میں تہران کے علاقہ بازار میں عوامی مظاہرے ، حوزہ ہائے علمیہ میں درس و تدریس کے سلسلے کی طویل مدت تک بندش اور بین الاقوامی اداروں اور مراجع تقلید کے نام اجتماعی دستخطوں کے ساته خطوط کا ارسال شامل تها ۔

امام خمینیؒ کی جلا وطنی کے اگلے دن آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینیؒ کو بهی گرفتار کر کے جیل بهیج دیا گیا ، کچه دنوں کے بعد ۳ جنوری ۱۹۶۵ ء  کے دن ان کو بهی جلا وطن کر کے اپنے والد گرامی کے پاس ترکی بهیج دیا گیا ۔ امام خمینیؒ کی ترکی جلاوطنی کا دور بہت سخت اور اذیت ناک تها ، حد یہ ہے کہ آپؒ کو  علماء کے لباس پہننے کی بهی ممانعت کی گئی تهی ۔ اس کے با و جود کسی قسم کا ذہنی اور جسمانی تشدد انہیں سازش قبول کرنے پر مجبور نہ کر سکا۔ ترکی پہنچتے  ہی امام ؒ کو انقرہ کے ہوٹل بلوار پیلس کی چوتهی منزل کے کمرہ نمبر ۵۱۴ میں رکها گیا اور دوسرے دن ان کی اقامتگاہ کو خفیہ رکهنے کیلئے انہیں اتاترک ایونیو پر واقع کسی جگہ منتقل کیا گیا ، اس کے چند دن بعد   ۱۲ جنوری ۱۹۶۵ ء  کو مزید گوشہ نشین کرکے ہر قسم کے روابط منقطع کرنے کے لئے آپؒ کو انقرہ کے مغرب میں ۴۶ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہربورسا منتقل کر دیا گیا ، اس دروان امام ؒ کے لئے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں کے امکانات بندہوگئے آپؒ کی نگرانی براہ راست ایرانی حکومت کے کارندے اور ترک حکومت کے سکیوریٹی والے کرتے تهے ۔

امام خمینیؒ ۱۱ ماہ تک ترکی میں رہے ، اس عرصے میں شاہی حکومت ایرن کے اندر موجود جہادی قوتوں کو غیر معمولی شدت کے ساته کچلنے میں کامیاب ہو گئی اور امام ؒ کی غیر موجودگی میں فورا امریکہ کی من پسند اصلاحات نافذ کی گئیں ، عوام اور علماء کے دباؤ کی وجہ سے حکو مت اس بات پر راضی ہو گئی کہ گاہے بگاہے امام ؒ کے حال احوال سے مطلع ہونے اور آ پ کی صحت و سلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کیلئے انکی طرف سے نمائندے بهیجیں ، اس عرصے میں امام ؒ اپنے رشتے داروں اور حوزہ علمیہ کے بعض علماء کے نام خطوط میں اشاروں کنایوں سے اور دعاؤں کی صورت میں جہادی عمل کو ثابت قدمی سے جاری رکهنے کے ساته کتب ادعیہ اور فقہی کتب ارسال کرنے کی درخواست کرتے تهے ۔ ترکی میں جبری اقامت کے موقع سے فائدہ اٹهاتے ہوئے امام ؒ نے شہرہ آفاق کتاب ’’ تحریر الوسیلہ ‘‘ کی تصنیف مکمل کی ، یہ کتاب امام ؒ کے فقہی فتاوے پر مشتمل ہے جس میں جہاد ، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے دینی فرائض پر آج کے دور میں پہلی بار عصری تقاضوں کے مطابق فتوے دیے گئے تهے جب کہ یہ موضوعات طاق نسیان میں رکهے گئے تهے ۔ یاد رہے کہ فقہ اور اصول فقہ میں امام خمینیؒ نے آیۃ اللہ بروجردی کی وفات سے برسوں پہلے اپنے اجتہادی نظریات سپرد قلم کئے تهے جن کی طرف ہم آگے چل کر امام خمینیؒ کی تصانیف اور کتب کے ضمن میں اشارہ کریں گے ۔

 



[1] ’’ کوثر ۔ انقلاب اسلامی کے واقعات کی تفصیل ‘‘ ج ۱ ص ۱۶۹ ۔ ۱۷۸ ۔

[2] صحیفہ امام  ؒ ‘‘ ج ۱ ص۲۷۲ ۔

ای میل کریں