عروۃ الوثقی یونیورسٹی کے سربراہ نے سرگودها میں ایک مجلس میں خطاب کے دوران کہا کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ وہ ہستی ہیں جس نے تشیع کو دنیا میں زندہ کیا، وہ تشیع جس کو دوسری دنیا مکمل فراموشی کر چکی تهی اور تشیع کی طرف متوجہ ہی نہیں تهی، اس وقت جب مغربی لوگ مسلمان ممالک میں آکر اسلام کا مطالعہ کرتے تهے اور جب مطالعے کے بعد اسلامی فرقوں کا نام لکهتے تهے تو تشیع کا نام ہی نہیں لکهتے تهے اور اگر لکهتے بهی تهے تو فہرست کے بالکل آخر میں لکهتے تهے، یعنی تشیع اسلام کے صفحوں میں گمنام اور گوشہ نشین ہو گیا تها لیکن اس ہستی نے تشیع کو اُن گوشوں اور اسلامی فرقوں کی فہرست کے آخر سے اٹهاکر آج عالمِ اسلام کے ماتهے پر تاج بناکر رکه دیا ہے اور آج جو بهی اسلام کا نام سنتا ہے سب سے پہلے تشیع کا تصور آتا ہے۔ امام راحل(رہ نے اپنے پیروکاروں کو اور ساری امت مسلمہ کو تعلیم دی ہے کہ اپنی زندگی میں ایک کام کا بهرپور خیال رکهنا اور وہ یہ کہ کبهی بهی اُس میدان میں نہ کودنا جو دشمن نے تمہارے لئے تیار کر رکها ہے، اگر اس میدان میں کود گئے تویوں سمجهو کہ دشمن کی نیت پوری ہوگئی اور تم نے دشمن کے ارادے اور خواہش پر عمل کیا۔ لہٰذا اس میدان میں مت جانا جہاں دشمن تمہیں لے جانا چاہتا ہے بلکہ اس میدان میں جانا جسے اللہ تعالیٰ، رسول اللہ(ص)، ائمہ هدیٰ (ع) اور اُن کے نائبین نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے اور وہ دین کا میدان ہے۔
علامہ نے مزید فرمایا کہ یہ بصیرت شیعہ کے اندر ہونا ضروری ہے کہ ہم کس میدان میں کودیں؟ کہاں بیان دیں؟ کہاں احتجاج کریں؟ کہاں ریلی نکالیں؟ کہاں دهرنا دیں؟ کہاں پر ہم آواز اٹهائیں اور کس کے خلاف آواز اٹهائیں! اُس میدان میں ہر گز نہ جائیں جو دشمن نے تمہارےلئے آمادہ کیا ہے۔