نجی زندگی کے بارے میں امام خمینی(رہ) کی وصیت

نجی زندگی کے بارے میں امام خمینی(رہ) کی وصیت

اپنے وارثین اور قرابتداروں کو تمام کاموں میں تقوی، صبر اور ثبات وپائیداری کی وصیت کے بعد آپس میں محبت آمیز رویہ نیز بندگان خداوند عالم کے ساته نیک سلوک، دنیا کی زرق وبرق سے دوری اور خداوند عالم کی طرف توجہ دینے پر تاکید کرتا ہوں۔

امام خمینی(رہ) نے اپنی با برکت عمر میں متعدد مرتبہ شرعی اور نجی زندگی کے مسائل پر مشتمل وصیت نامہ قلمبند کیا۔ ان میں سے آپ کے ذریعہ ایک وصیت نامہ ۳/آبان ۱۳۶۱ه۔ش (25 اکتوبر 1982ء) کو ضبط تحریر میں آیا جو ۶/ بندوں پر مشتمل ہے۔ اس خصوصی زندگی کے بارے میں لکهے گئے وصیت نامہ میں آپ نے سید احمد خمینی(رہ) کو اپنا وصی قرار دیا۔ مذکورہ وصیت نامہ میں ذاتی مال و دولت کے فقدان، قم میں موجود گهر کے علاوہ کسی طرح کے ذاتی وسائل کا عدم، بطور احتیاط پانچ سال نماز اور روزے کی قضا، اسلامی نظام و مملکت {ایران} کی خدمت پر تاکید اور والدہ نیز دیگر اعزاء واحباب کے ساته نیک برتائو اور اچهے کردار کی تاکید کی گئی ہے:

بسم اللَّه الرحمن الرحیم
الحمد للَّه على آلائه و نعمائه و الصلاة و السلام على أنبیائه، سیّما افضلهم و خاتمهم؛ و على اولیائه المعصومین، سیّما ابى الأئمة و افضل الاولیاء امیر المؤمنین- صلوات اللَّه علیه و على اهل بیته و اولاده- سیّما بقیة اللَّه روحى لتراب مقدمه الفداء.  
آمنت بکلّ ما جاء به النبی الخاتم- صلى اللَّه علیه و آله و سلم.  

اما بعد! ۷/ محرم الحرام ۱۴۰۳ ہجری قمری بمطابق ۳/آبان ۱۳۶۱ ہجری شمسی کو یہ چند سطور بعنوان وصیت نامی تحریر کررہا ہوں:

اپنے وارثین اور قرابتداروں کو تمام کاموں میں تقوی، صبر اور ثبات وپائیداری کی وصیت کے بعد آپس میں محبت آمیز رویہ نیز بندگان خداوند عالم کے ساته نیک سلوک، دنیا کی زرق وبرق سے دوری اور خداوند عالم کی طرف توجہ دینے پر تاکید کرتے ہوئے اپنے بیٹے احمد خمینی۔ایدہ اللہ تعالی۔ کو اپنے ذاتی امور میں اپنا وصی قرار دیتا ہوں۔ ضروری نکات مندرجہ ذیل چند سطروں میں بیان کررہا ہوں:

۱۔ میرا کسی بهی بینک، موسسہ، کمپنی یا کہیں اور کسی بهی طرح کا کوئی بیلنس نہیں ہے۔ اور جو کچه بهی بینکوں یا بعض دیگر مقامات پر رقوم ہیں وہ وجوہ شرعیہ ہیں۔ میرے کسی بهی وارث کا ان میں کوئی حق نہیں ہے۔ میرے بعد اس کے استعمال کا حق جناب حجۃ الاسلام والمسلمین جناب شیخ حسینعلی منتظری ۔دامت برکاتہ۔ کو ہے۔ جن کے زیر نظر یہ رقوم صحیح مصرف میں لائی جائیں گی۔ اور اگر خدا نخواستہ ان پر بهی کوئی برا وقت آن پڑے تو اس شرعی رقم کی ذمہ داری اس رہبر یا رہبروں پر عائد ہوگی جن کا تعین مجلس خبرگان فرمائے گی۔

۲۔ قم یا تہران میں موجود تمام اثاثہ، میری اولاد کی والدہ ماجدہ سے متعلق ہے۔ ان میں سے بعض خود ان کا ذاتی ہے اور ما بقی جو میرا ہے، وہ میں انہیں ہبہ کرتا ہوں جس پر انہیں مکمل اختیار ہے۔ اسی طرح دو بڑی قالین ہیں جو سہم سادات سے ہیں اور میں نے وقتی طور پر ان سے استفادہ کی اجازت دی تهی، میرے بعد انہیں سادات کے استعمال میں منتقل کرنا ہوگا۔ بعض دیگر وسائل بطور امانت ہمارے پاس ہیں جس کی خبر احمد کو ہے، وہ ان کے مالکوں کو واپس کر یں گے۔ قم اور تہران میں چند ایک کتابیں ہیں جو احمد کے اختیار میں ہیں۔ اگر انہیں خود ضرورت ہو تو استفادہ کریں اور اگر ان کے بهتیجے حسین کو ضرورت ہو تو اسے دے دیں۔ اور نہیں تو اسے ایک پبلک لائبریری میں وقف کردیں۔ بہت ناچیز رقم نقدی طور پر میرے پاس موجود ہے جس کا رقوم شرعیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں نے لکه بهی دیا ہے کہ یہ میرا ذاتی پیسہ ہے جو میرے بعد میرے وارثین کا ہوگا، علی ما فرضہ اللہ تعالی۔ اس بات کا احتمال ہے کہ شہر خمین میں میری مختصر ملکیت ہو جس کے بارے میں حجۃ الاسلام جناب پسندیدہ کو آگاہی ہے۔ وہ بهی میرے بعد میرے وارثین کا حق ہے۔

۳۔ قم میں موجود میرا مشہور گهر، میرا ذاتی ہے جو میرے بعد وارثین سے متعلق ہے۔ اور میری وصیت ہے کہ اس کے منافع جب تک میرے بچوں کی ماں زندہ ہیں ان سے متعلق ہے۔ مجهے امید کہ میری اولاد اور یہ بی بی اس وصیت کو قبول فرمائیں گے۔ اس عظیم خاتون کے ہم پر بہت سے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ خداوند عالم اس کا عوض انہیں مرحمت فرمائے۔

۴۔ بطور احتیاط پانچ سال کی نمازیں اور روزے کسی معتبر شخص کے توسط سے قضا بجا لائے جائیں۔ تا دم تحریر کسی سے میرا کوئی مطالبہ نہیں ہے اور میں کسی کا مقروض بهی نہیں ہوں۔ قم کے گهر کا چهٹا حصہ میرے بچوں کی ماں کو ان کی مہر کے عوض دیا جائے۔

۵۔ احمد ۔ وفقہ اللہ تعالی۔ سے میری خواہش اور آرزو ہے کہ نظام جمہوری اسلامی کی خدمت کے لئے اپنی طاقت صرف کریں، اور اگر میرے بعد ان سے ذمہ دار حضرات کسی قسم کی خدمت کا مطالبہ کریں تو وہ انہیں اسلام و مسلمین کے لئے انجام دیں نہ کہ دنیوی شہرت و عزت اور عہدہ ومنصب کی خاطر۔ جس کام کو بنحو احسن انجام دے سکیں اس سے انکار نہ کریں۔ موجودہ دور میں اس نظام و مملکت کی خدمت ہم سب کا فریضہ ہے۔

۶۔ اپنی تمام اولاد بالخصوص احمد سے چاہتا ہوں کی اپنی والدہ کے ساته حسن سلوک کریں اور ان کی تا حد امکان خدمت سے کناری کشی نہ کریں: والجنۃ تحت اقدام الامہات۔ اور احمد سے چاہوں گا کہ تمام رشتہ داروں اور اعزاء واقارب کے ساته اسلامی کردار سے پیش آئیں اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کریں۔ مجهے امید کہ حسین بهی تہذیب نفس اور علم کے زیور سے آراستہ ہونے میں کوتاہی نہیں کرے گا اور اپنی خداداد صلاحیت کو ضایع ہونے سے بچائے گا۔ بیٹی مریم ۔ وفقہا اللہ تعالی۔ سے میرا مطالبہ ہے کہ اسلامی اخلاق کی حفاظت کے ساته اعزاء و احباب کے ساته محبت میں غفلت نہ برتے۔ اپنے تمام اعزاء واقارب اور دوسروں سے عفو  و درگزر اور رحمت کا طلبگار ہوں۔

و السلام على عباد اللَّه الصالحین.  
روح اللَّه الموسوی الخمینى
صحیفه امام، ج17، ص،68


ماخذ: امام خمینی(رہ) پورٹل

ای میل کریں