جماران کے مطابق، امام شهیدان حضرت اباعبدالله الحسین(ع) اور ام المصائب زینب کبری(س) کو خراج عقیدت وتحسین پیش کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین سیدحسن خمینی نے اپنے مافی الضمیر کو رباعی قالب میں بیان فرمایا:
چشم انتظار مرحمت زینبیم ما
(ہم ہے زینب کی نوازش کے انتظار میں)
عمری است با غم تو به تاب و تبیم ما
(سالها سال تیرے غم میں ہم ہے بے تاب)
در ماتم و عزای تو ای پور بوتراب
(تیرے ماتم وعزا میں اے بوتراب کے بیٹے)
چون لاله داغ بر دل و خون بر لبیم ما
(سرخ پهول کی طرح دل پہ داغ اور لب، خون چکاں ہے)
***
یاد حسین خاطره صبح و شام ماست
(دن رات، ذکر حسین ہماری یاد ہے)
نام حسین زمزمه در هر کلام ماست
(ہر دم، حسین کے نام ہمارا ورد کلام ہے)
عشق حسین جوهره جان ما شده است
(عشق حسین، ہماری جان کے حصہ بن چکا ہے)
ذکر حسین رمز قوام و قیام ماست
(ذکر حسین، ہمارا بقا اور قیام کی راز ہے)
***
بی نامت آرزوی سرودن نداشتیم
(تیرے نام کے بغیر کچه کہنا آرزو نہ تهی)
بی تو توان گفت و شنودن نداشتیم
(تیرے سوا کہنے اور سننے کے تواں نہ تها)
یک روز بی تو طاقت ماندن نیاوریم
(ایک دن تیرے بغیر رکنے کی طاقت نہ تهی)
یک لحظه بی تو جرات بودن نداشتیم
(یک پلک تیرے بغیر رہنے کی جرءت نہ تهی)
***
آه از دمی که تیر به سوی تو پر کشید
(آہ! جب تیر جفا تیری سمت پرواز کر آیا)
جان جهان به ناله و غم در سقر کشید
(جان جہاں نالہ وغم میں سقر گهسیٹ گئی)
هم آسمان ز خجلت زینب کباب شد
(آسماں بهی زینب کی حالت پہ کباب ہوا)
هم عرش از مصیبت تو ناله بر کشید
(عرش علا بهی تیری مصیبت پہ نالہ کناں ہوا)
اثری از: حجة الاسلام سید حسن خمینی
- - - - - - - - - - -
اسی کے ساتهـ اس کلام پر بهی غور وفکر کیجئے گا جو بہت ہی معقول ومتین کلام ہے اور ہم سب کی کوشش ہونی چاہئے کہ اسے نصب العین قرار دے کر عملی جامہ پہنا دیں۔
حسین(ع) بیشتر از آب، تشنۀ لبیک بود!
(حسین علیہ السلام پانی سے زیادہ، تشنہ لبیک تهے)
امــا افسوس که به جای افکارش، زخمـهای تنش را نشانمان دادند؟!!
(لیکن افسوس! آپ(ع) کے افکار ومقاصد کی طرف توجہ دینے کے بجائے، زیادہ تر آپ(ع) کے زخموں کی طرف توجہ اور نشاندہی کیا گیا؟!!!)
وبزرگترین درد او را، بی آبی معرفی کردند؟!!
(اور آنحضرت(ع) کی سب سے عظیم درد کو، درد بی آبی جانا گیا؟!!!)
کلام از: مرحوم دکتر شریعتی