اربعین سیدالشہداء (ع)، ہماری دینی شعائر اور اجتماعی ثقافت ہے جو صفرالمظفر کی ۲۰ویں تاریخ کو ہوتا ہے۔
اربعین کے بارے میں جو کچھ ہماری دینی ثقافت میں آیا ہے، وہ حضرت سیدالشھداء علیہ السلام کی شہادت کا چھلم ہے جو صفر کی بیسویں تاریخ کو ہوتا ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے ایک حدیث میں "مومن" کےلئے پاںچ علامتوں کا ذکر کیا ہے: ۱/۔ اکاون رکعت نماز ادا کرنا، ۲/۔ زیارت اربعین پڑھنا، ۳/۔ انگوٹھی کو دائیں ہاتھ میں پہںنا، ۴/۔ نماز میں پیشانی کو تربت امام حسین علیہ السلام پر رکھںا اور نماز میں "بسم اللہ" کو بلند آواز میں پڑھنا۔
[مجلسی، بحارالانوار، ج۹۸، ص۳۲۹]
اس کے علاوہ مورخین نے لکھا ہےکہ حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری، عطیہ عوفی کے ھمراہ، عاشورا کے بعد، یعنی امام حسین (ع) کے پھلے اربعین پر، امام علیہ السلام کی زیارت کیلئے تشریف لے آئے۔
[بشارۃ المصطفی، طبری، ص۱۲۶]
سید ابن طاووس علیہ الرحمہ نقل کرتے ہیں کہ جب امام حسین (ع) کے اھل بیت علیہم السلام قید سے رہائی کے بعد شام سے واپس لوٹے تو عراق پہںچے؛ انہوں نے اپنے راہنما سے کہا: ہمیں کربلا کے راستے سے لے چلو؛ جب وہ امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب کے مقتل میں پہنچے تو جابر ابن عبداللہ انصاری کو بنی ہاشم کے بعض لوگوں کے ساتھ اور آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے ایک مرد کو دیکھا جو امام حسین (ع) کی زیارت کےلئے آئے تھے، وہ سب ایک ہی وقت میں مقتل پر پھنچے اور سب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر گریہ اور اظہار حزن کیا اور سروں اور چہروں کو پیٹنا شروع کیا اور ایک ایسی مجلس عزا برپا کی جو دلخراش اور جگرسوز تھی۔ اس علاقے کی عورتیں بھی ان سے ملحق ہوئیں اور کئی دنوں تک انہوں نے عزاداری کی۔
[بحارالانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمہ، ج۴۵، ص۱۴۶]۔