سوال: غنیمت؛ جس پر خمس واجب ہے؛ کی وضاحت کیجئے؟
جواب: جوکچھ اہل حرب سے زبردستی بلکہ چوری اور فریب سے بھی بطور غنیمت لیاجائے جبکہ یہ چوری اورفریب جنگ کے دوران ہواورجنگی امور میں شامل ہواوراہل حرب سے مراد ایسے لوگ ہیں کہ جن کے خون اوراموال حلال ہوں اورجن کی عورتوں اوربچوں کواسیر کرنا جائز ہوجبکہ ان سے جنگ امام (ع) کے اذن سے ہو۔قول صحیح ترکی بناپر اس میں کوئی فرق نہیں کہ کوئی چیز فوج نے حاصل کی ہویا نہ ، جیسے زمین وغیرہ لیکن وہ چیز یں جوامام ؑ کی اجازت کے بغیر جنگ میں غنیمت کے طور پر حاصل کی جائیں تواگرامام ؑ کی موجودگی میں ہو اورامام ؑ کی اجازت پر متمکن ہوتویہ مال انفال ہوگا۔البتہ جوامام ؑ کی غیبت میں ہواوراذن امام ؑ پر متمکن نہ ہوتواقویٰ یہ ہے کہ اس میں خمس واجب ہے خصوصاً اگرجنگ دعوت اسلا م کے لئے ہو، یہی حکم ہے ۔ اگرانہوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ کیاہواورمسلمانوں نے دفاع کے دوران میں ان سے غنیمت حاصل کی ہواگرچہ ایسا غیبت کے زمانے میں ہواوروہ کچھ بھی کہ جوان سے چوری اورفریب سے لیاہو البتہ جو کچھ گزر گیاہے اورکے علاوہ کایہی حکم ہے ۔نیز یہی حکم رباء باطل دعوے اورایسی ہی دیگر چیزوں سے حاصل ہونے والی غنیمت کاہے ۔لہذا احتیاط یہ ہے کہ اس سے خمس نکالا جائے اس لحاظ سے کہ وہ غنیمت ہے نہ کہ فائدہ لہذا مخارج سال کوملحوظ رکھنے کی اس میں کوئی ضرورت نہیں البتہ اقویٰ اس کے خلاف ہے ۔ نیز اصح کی بناپر غنیمت میں وجوب خمس کے لئے ضروری نہیں کہ (اس کی مالیت ) بیس دینار تک پہنچ جائے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ کسی مسلمان یاذمی یاہم پیمان یاکسی اورایسے شخص کے مال سے غصب شدہ نہ ہوکہ جس کامال محترم ہے برخلاف اس کے کہ جو اہل حرب سے ان کے ہاتھ لگے اگرچہ اس صف آرائی میں ان سے جنگ نہ ہو۔نیز اقویٰ یہ ہے کہ ناصبی بھی اہل حرب سے ملحق ہوتاہے اس اعتبار سے کہ غنیمت کااس سے لیاجانا اوراس پر خمس کاعائد ہونا مباح ہے ۔بلکہ ظاہر یہ ہے کہ جس جگہ بھی ہواورجس طرح سے بھی ہواس کامال لینا جائز ہے اوراس سے خمس نکالنا واجب ہے۔
تحریر الوسیلہ، ج 2، ص 52