اسلام ٹائمز ۔ قم المقدسہ (ایران) میں آج 23 اور 24 نومبر 2014ء کو انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس شروع ہوگئی ہے۔ اس کانفرنس کا عنوان ہے:
المؤتمر العالمی آراء علماء الاسلام فی التیارات المتطرفۃ والتکفیریۃ
(The World Congress on Extremist and Takfiri Movements in the Islamic Scholar\'s view) اس کانفرنس کے داعی اور میزبان عالم تشیع کے نامور مرجع آیت اللہ العظمٰی شیخ ناصر مکارم شیرازی ہیں۔ یہ ایک غیر سیاسی اور خالص علمی کانفرنس ہے، جس میں 83 ممالک سے ممتاز علمائے اسلام شرکت کر رہے ہیں۔ اس میں پاکستان سے شریک ہونے والے علماء میں:
صاحبزادہ ابوالخیر زبیر (صدر ملی یکجہتی کونسل و جمعیت علمائے پاکستان)،
علامہ سید ساجد علی نقوی (سینیئر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل و سربراہ اسلامی تحریک پاکستان)،
مولانا محمد خان شیرانی(چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)،
علامہ ناصر عباس جعفری(سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین)،
سینیٹر مولانا گل نصیب (صوبائی امیر، خیبرپختونخوا، جمعیت علمائے اسلام)،
علامہ محمد امین شہیدی (ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین)،
مولانا عطاء الرحمن (جمعیت علمائے اسلام)،
مولانا مفتی گلزار احمد نعیمی (سربراہ جماعت اہل حرم)
اور راقم (ڈپٹی سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل) شامل ہیں۔
کانفرنس کے ترجمان حجۃ الاسلام ڈاکٹر علی زادہ موسوی کے مطابق اس کانفرنس میں پورے عالم اسلام سے 300 سے زیادہ علماء اور مفتیان کرام شریک ہو رہے ہیں۔ ان علمائے کرام کا تعلق مختلف اسلامی مکاتب فکر سے ہے۔ علاوہ ازیں ایران کے طول و عرض سے بهی سنی اور شیعہ علمائے کرام کانفرنس میں موجود ہونگے۔ کانفرنس کے لئے 700 مقالات پوری دنیا سے موصول ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ 1000 کے قریب مقالات کا خلاصہ بهی کانفرنس کے مرکز تک پہنچ چکا ہے۔ کانفرنس کے ذمے دار علمائے کرام نے موضوع کی مناسبت سے 35 کتب تیار کی ہیں جو شرکاء کو پیش کی جائیں گی۔ ان کتب میں عالم اسلام کے جید علماء کرام کے افکار و نظریات شامل کئے گئے ہیں۔ بعض اکابر علماء کی تصنیفات کو بهی نئے سرے سے شائع کیا گیا ہے۔
اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق، آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے "علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں پر عالمی کانفرنس" میں اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا:
میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس کانفرنس میں حاضر ہونے پر شکر گزار ہوں۔
آج کل کے حالات میں ضروری ہے کہ اس منحرف گروہ کے محرکات کا جائزہ لیا جائے اور انکے افکار ونظریات کو سمجه کر انکی جڑوں کو خشک کر دیا جائے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں تکفیریوں کے ذریعہ انجام پانے والے ہولناک جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آخر کب تک ہم ہاته پر ہاته دهرے انکا تماشا دیکهتے رہیں؟
انہوں نے فرمایا کہ آج ہم یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ عالم اسلام کی اہم ترین مشکلات کے سلسلہ میں گفتگو اور مشورہ کریں اور تکفیریوں کے منحوس اعمال کے لئے کوئی مناسب راہ حل تلاش کریں۔
مرجع تقلید نے کہا: اسلام حتیٰ غیروں کے لئے بهی محبت و مہربانی کا مذہب ہے۔ ہمیں دنیا والوں کے لئے یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ تکفیریوں کے اعمال و کردار کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو فریب خوردہ جوان طبقہ ان سے جا ملا ہے اسے ان سے جدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تکفیری گروہ سے فوجی مقابلہ لازم اور ضروری ہے مگر کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے اسلام کے ذریعہ انکی جڑوں کو خشک کر دیا جائے۔
ہمارے تین اہم اہداف و مقاصد ہیں
پہلا ہدف یہ ہے کہ ہم اس بات کا اعلان کریں کہ تمام علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ تکفیری کے اعمال و کردار کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
دوسرا ہدف یہ ہے کہ وہ جوان جو ان تکفیریوں سے جا ملے ہیں انہیں آتش جہنم سے نجات دلائی جائے۔ اس لئے کہ ارشاد خداوندی ہے کہ جو شخص کسی مومن کو جان بوجه کر قتل کرے وہ ہمیشہ جهنم میں رہے گا۔
تیسرا ہدف یہ ہے کہ آپس میں مل بیٹه کر گفتگو کی جائے اور ایک دوسرے کے مشورہ سے کوئی ایسا راہ حل تلاش کیا جائے جس کے ذریعہ امت مسلمہ اس بحران سے اپنے کو نجات دلا سکے۔
ہم چاہیں گے کہ اس مہم میں تین بنیادی اصولوں کا خیال رکها جائے اور ان حدود سے آگے نہ بڑها جائے:
پہلے یہ کہ انتہا پسند دینی اور مختلف سیاسی مسائل سے پرہیز
دوسرے یہ کہ مذهبی اختلافات کو ہوا دینے والے مسائل حتیٰ ایک کلمہ سے بهی پرہیز
تیسرے یہ کہ تمام اسلامی مذاہب کا احترام
مرجع تقلید نے اپنی بات کو آگے بڑهاتے ہوئے تکفیریوں کی بنیادی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:
۱۔ اپنی رائے کو دوسروں پر تهوپنا
۲۔ بعض آیات پر ایمان اور بعض دیگر کا انکار
آیۃ اللہ مکارم کا کہنا تها: ہم بہت ہی آہ و کرب کے عالم میں اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ تکفیریوں نے اسلام اور قرآن سے بہت ناچیز درک کیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حقیقی علماء سے وہ دور رہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ قرآنی آیات کی غلط تفسیر کرتے ہیں۔
ہم عام طور پر صرف مشکلات کا ذکر کرتے ہیں اور درد کا ذکر کرتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ راہ علاج کو تلاش کیا جائے تاکہ بے شمار مشکلات کا سرچشمہ قرار پانے والے افکار و نظریات کا خاتمہ کیا جاسکے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم ہو سکے۔
قرآن کریم نے تفرقہ ایجاد کرنے کو بهی شرک کا ایک مصداق قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: مشرکین اور وہ لوگ جو تفرقہ کا شکار ہو گئے، ان میں سے مت ہو جانا۔
اس سال کو تشدد اور انتہا پسندی سے عاری سال کا نام دیا گیا ہے، مگر ہم دیکه رہے ہیں کہ بہت سوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور دنیا والوں کے اموال و ناموس پر دست درازی کی جارہی ہے۔ ادهر مغربی اور عربی ممالک صرف فوجی راہ حل پر اکتفا کئے ہوئے ہیں جبکہ یہ کافی نہیں ہے اور ضرورت ہے کہ فکری طور پر محرکات کو درک کر کے راہ حل پیش کیا جائے۔
آیۃ اللہ مکارم نے اپنی تقریر کے اختتام پر تکفیریوں کے وجود میں لانے والے اسباب و محرکات پر غور و خوض کرنے کے لئے یہ تجویز رکهی کہ اس کانفرنس کو ایک مستقل محکمہ تشکیل دیا جائے جس کا مرکزی دفتر عالم اسلام کے کسی ایک اهم شهر میں ہو۔ علمائے اسلام اسکی رکنیت قبول کریں اور ان تکفیری اور انتہاپسندانہ سرگرمیوں کے خاتمہ پر تحقیقات میں مصروف ہوں۔