مناجات شعبانیہ آپ نے پڑھا ؟جناب پڑھیں ،مناجات شعبانیہ ان مناجات اور دعاؤں میں سے ہے کہ اگر انسان اس میں غور و خوض کرے اور اس کے الفاظ اور مطالب میں دقت کرے تو یہ انسان کو اس مقام پر پہونچا دیں گے ۔جس نے یہ مناجات ایجاد کی ہے اور روایات کے مطابق اسے سارے ائمہ پڑھتے تھے ،یہ سب ان لوگوں میں سے جو ہر چیز سے آراستہ تھے اس کے باوجود اس طرح مناجات کرتے تھے ،کیونکہ خود پسند نہیں تھے ،جو کچھ بھی ہو اس طرح نہیں تھے کے صرف اپنے آپ پر نظر کرتے ہوں ،کہ میں امام صادق ہوں نہ اس آدمی کی طرح امام صادق جو گناہ میں ڈوبا ہوا ہے ،مناجات کرتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں اور جو کچھ بھی ہے وہ نقص ہے اور جو بھی ہے اسی کا دیا ہوا ہے ۔جتنا کمال بھی ہے اسی کا عطا کیاہوا ہے،اپنا کچھ نہیں ہے ،کوئی چیز اپنی نہیں ،انبیاء بھی کچھ نہیں رکھتے تھے ،سب ھیچ ہیں اور صرف اور صرف وہ ہے ،سارے اس کے بعد ہیں اور اس کی تلاش میں ہیں ،ساری فطرتیں اس کی تلاش میں ہیں،فرق یہ ہے کہ ہم پر حجاب پڑا ہوا ہے لہذٰا ہم نہیں سمجھ پاتے کہ ہم اس کی تلاش کر رہے ہیں،جو لوگ سمجھتے ہیں وہ با کمال ہوجاتے ہیں اور اسی معنی کی تلاش میں جاتے ہیں ،یہ انقطاعی کمال جو انہوں نے چاہے ،یہ انقطاعی کمال وہی ہے کہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں اپنی اصل سے دور ہوں گی" إِنَّهُ کانَ ظَلُوماً جَهُولا"جو آیت شریفہ میں ذکر ہوا ہے ،" إنا عرضنا الأمانة على السماوات والأرض والجبال فأبين" اس کے بعد ارشاد فرماتے ہے: " إِنَّهُ کانَ ظَلُوماً جَهُولا" بعض کہتے ہیں کے " ظَلُوماً جَهُولا" بالاترین وصف ہے جو خدا نے انسان کے لئے کی ہے"ظلوماً" کہ اس نے سارے بتوں کو توڑ ڈالا اور ہر چیز کو توڑ ڈالا ۔" جہولا" اس وجہ سے کہ ساری چیزوں کی طرف توجہ نہیں رکھتا اور کسی چیز کی طرف توجہ نہیں ہے ،ہر چیز سے غافل ہے ،ہم اس طرح نہیں ہو سکتے ۔ہم امانت دار بھی نہیں ہوسکتے ،لیکن اس راہ میں ہوسکتے ہیں
(صحیفہ امام،ج19 ص253)