چوتھے امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہما السلام کی زندگی میں جہاد کی نشانیاں بخوبی قابل مشاہدہ ہیں۔
جو لوگ حسین بن علی علیہما السلام کے ساتھ سر زمین کربلاء پر باقی رہ گئے تھے ان کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے اقدامات میں صرف ایثار اور فدا کاری ہے، اس لیے کہ اسلام کو جانفشانی اور خون کی ضرورت تھی اور امام حسین علیہ السلام تیار تھے کہ خود کو ان تمام چیزوں کی راہ میں پیش کریں تا کہ کچھ نتیجہ حاصل ہو۔
یہ حقیقت امام زین العابدین علیہ السلام سے کہ جو اس وقت بڑوں کی عمر کے تھے اور ۲۳ سال آپ کی عمر ہو چکی تھی اور شروع سے لے کر آخر تک اپنے امام اور والد کے ہمراہ تھے مخفی نہیں تھی۔ اس بنا پر امام کے ساتھ آپ کی موجودگی اس شجاعت اور روح جہاد کے وجود کے اثبات کی اکیلی ہی قانع کنندہ دلیل ہے کہ جو ان دلاوروں کے اندر پائی جاتی تھی اور انہوں نے آخری وقت تک حسین علیہ السلام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
اس طرح واقعہ کربلا سے پہلے جو شخص جہاد کے جذبے سے بہرہ مند تھا اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے وقت کے امام، بھائیوں، قرابتداروں، ماننے والوں کی جانفشانی اور فدا کاری کو دیکھنے کے بعد خاموشی اختیار کرے اور اپنے امام کے خون کا کہ جو خون خدا ہے، انتقام لینے کی کوشش نہ کرے۔ کیسے ممکن ہے کہ امام زین العابدین جیسی شخصیت، اجازت دے دے کہ وقت کے امام اور ان کے باپ اور خاندان کا خون بے کار ہو جائے؟
کوفے میں ابن زیاد ملعون کی مجلس میں اور شام میں یزید لعنۃ اللہ علیہ کی مجلس میں امام زین العابدین علیہ السلام کی سیاسی شجاعت، میدان جنگ میں شجاعت سے کم نہیں تھی۔ ایسی دلاوری کا مظاہرہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہ جو طاقتور اور مضبوط دل کا مالک ہو اور ہر رنج کو برداشت کر سکے اور تمام مقاصد کے حصول کے لیے جہاد کرے کہ انہی چیزوں کے لیے وہ عظیم انسان میدان کربلاء میں آئے، جانفشانی کی اور شہید ہو گئے۔ اب جو شخص کربلاء والوں میں شمار ہوتا ہے اور زندہ ہے چاہے اسیر ہی کیوں نہ ہو اس کو قیام کرنا ہوگا اور دوسرے انداز کا جہاد کرنا ہوگا۔
جو کردار امام سجاد علیہ السلام نے ادا کیا وہ یہ تھا کہ ایک معجزہ نما بیان اور بلاغت کے ذریعے حق کو آشکارا کیا اور واضح طور پر سب پر حجت تمام کی اور اسلام کے نام پر حکومت کرنے والوں کے نیرنگ کو برملا، ان کے فساد، ستمگری اور اسلام سے انحراف سے پردہ اٹھاکر رسولـخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسلام کو بیان کیا۔ ان تباہ کار حکام کے خلاف اس کردار کا اثر امام حسین علیہ السلام کی اس شمشیر براں سے کئی درجہ زیادہ تھا کہ جو آپ نے ستمگروں کے مقابلے پر نیام سے کھینچی تھی، اس لیے کہ ان حالات میں آنحضرت کا کوئی یاور اور مددگار نہیں تھا۔
حضرت نے شام کے لوگوں سے ملاقات کے وقت فرمایا:
اے لوگو! ہر خاموشی کہ جس میں فکر نہ ہو وہ بے چارگی ہے اور ہر کلام کہ جس میں خدا کی یاد نہ ہو وہ گرد و غبار ہے کہ جو ہوا میں بکھر جاتا ہے۔ ہاں! جان لو کہ خدا نے اقوام کو ان کے باپ دادا کی وجہ سے عزت دی ہے۔ اس بنا پر بچے باپ کے ذریعے محفوظ رہے ہیں، اس لیے کہ خداوند عالم فرماتا ہے: " وَ کانَ أَبُوهُما صالِحاً [کهف/۸۲] " ان دونوں کا باپ صالح تھا لہذا خدا نے ان دونوں کو عزت سے نوازا۔
خدا کی قسم ہم رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی عترت ہیں اس لیے آنحضرت کی خاطر ہماری عزت کرو۔ اس لیے کہ میرے نانا رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے منبر سے فرمایا تھا: مجھے میری عترت اور میرے خاندان کے اندر محفوظ رکھو اور جو مجھے محفوظ رکھے گا خدا اسے محفوظ رکھے گا اور جو مجھے اذیت دے گا اس پر خدا کی لعنت ہوگی، یہاں تک کہ آپ نے تین بار یہی جملہ دوہرایا۔ خدا کی قسم ہم وہ خاندان ہیں کہ خدا نے ظاہری اور باطنی گناہوں، پلیدیوں اور برائیوں کو ہم سے دور رکھا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے صراحت کے ساتھ اور پوری طاقت اور بلاغت سے اپنے خاندان کا کہ جن کو خارجی بتایا گیا تھا، تعارف کروایا اور ان کی جھوٹی تبلیغات کو برملا کیا اور اس طرح یہ بات سب کو بتا دی کہ یہ کاروان، خارجیوں کا نہیں بلکہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاندان پر مشتمل ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے دوسری بار یزید کے دربار میں اپنے موقف کا اظہار کیا۔ آپ نے اس مجلس میں سب کے سامنے اپنی پہچان کرائی اور کسی بھی نا آشنا کے لیے کوئی بہانہ نہیں چھوڑا۔ یہ تعارف اس مجلس میں ہوا کہ جو یزید نے کامیابی کی خوشی میں جشن کے طور پر منعقد کی تھی اور اشراف اور بزرگوں کو اس میں بلایا تھا۔
امام سجاد علیہ السلام نے پورے جوش و خروش کے فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا اور فرمایا :
" أَیُّهَا النَّاسُ! أَنَا ابْنُ مَکَّةَ وَ مِنَی أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّکْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَی أَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّی أَنَا ابْنُ مَنْ حُمِلَ عَلَی الْبُرَاقِ فِی الْهَوَاءِ أَنَا ابْنُ مَنْ أُسْرِیَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی أَنَا ابْنُ مَنْ بَلَغَ بِهِ جَبْرَئِیلُ إِلَی سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی أَنَا ابْنُ مَنْ دَنا فَتَدَلَّی فَکانَ قابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنی أَنَا ابْنُ مَنْ صَلَّی بِمَلَائِکَةِ السَّمَاءِ أَنَا ابْنُ مَنْ أَوْحَی إِلَیْهِ الْجَلِیلُ مَا أَوْحَی أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَی أَنَا ابْنُ عَلِیٍّ الْمُرْتَضَی أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِیمَ الْخَلْقِ حَتَّی قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ..." کروا رہے تھے اور اپنے باپ دادا کے افتخارات کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اہل مجلس زور زور سے رونے لگے!!
پس امام سجاد علیہ السلام کی سیرت کے پیش نظر اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آنحضرت نے زندگی کے تمام حالات میں دین اسلام کی تبلیغ کو نہیں چھوڑا اور ہمیشہ لوگوں کو دین کے بارے میں بتاتے رہے۔
بشکریہ شیعت نیوز ویب سائٹ