پندرہ خرداد سے قبل رونما ہونے والے واقعات کی مخالفت میں جب ایک چھوٹا مظاہرہ ہوا، اگر اس وقت معزول شاہ، اچھے انداز سے پیش آتا تو یہ انقلاب بر پا نہ ہوتا، اگر وہ قبول کرلیتا تو پھر دوسرے بڑے مسائل اس وقت پیش نہ آتے، اگر وہ اس وقت وہ قبول کرلیتا تو جو لوگ اس کے مخالف تھے، ان کا ولولہ ٹھنڈا پڑجاتا اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ جو مشکلات انہوں نے پیدا کیں ، اگر میں ان کو ایک ایک کر بیان کرنا چاہوں تو ایک تو مجھے [ساری] یاد بھی نہیں ہیں اور دوسرے وہ بہت زیادہ ہیں ۔ یہ جو لوگ دباؤ ڈالتے تھے اور جو گستاخیاں خصوصاً علماء کی شان میں کرتے تھے، البتہ میں نے کبھی ان کو ملاقات کیلئے وقت نہیں دیا تھا، پھر بھی ایک دفعہ آئے اور میرا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب جناب حکیم مرحوم نے ٹیلی گراف بھیجا تھا اور یہ لوگ چاہتے تھے کہ اس کا جواب نہ دیا جائے یا شاید یہ اس سے پہلے کی بات ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’حکومت کے چند افراد آپ سے ملنے کیلئے آئے ہیں ‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’میں ان سے نہیں ملوں گا‘‘ کیونکہ یہ ایسے افراد ہیں کہ جب یہاں مجھ سے ملاقات کریں گے تو کچھ کہیں گے اور یہاں سے باہر جا کر جھوٹ بولیں گے۔ [اس لیے] میں ان سے ملاقات نہیں کروں گا‘‘ لیکن بعض دوسرے علماء نے ان سے ملاقات کی اور جس عالم نے ان سے ملاقات کی تھی وہ اسی دن سہ پہر کو خوفزدہ حالت میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ افراد کہہ رہے تھے کہ اگر تم نے جناب حکیم کے ٹیلی گراف کا جواب دیا تو ہم تمہارے گھروں پر حملہ کردیں گے۔ تمہارے ساتھ برا سلوک کریں گے۔ تمہارے عورتوں کے ساتھ سختی کریں گے اور اس طرح کی بیہودہ باتیں کررہے تھے۔ [اور وہ عالم کہنے لگا کہ] اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے کہا: ’’تم نے ان کی باتوں پر یقین کرلیا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا کہ ہم کیا کریں ؟ میں اسی وقت اٹھا اور میں نے جناب حکیم [کے ٹیلی گراف] کا جواب دے دیا۔ اگر اس وقت بھی یہ ہمارے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتے تو ہم کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے تھے اور بات ان مسائل پر منتج نہ ہوتی۔ اگر ۱۵ خرداد کا واقعہ پیش نہ آتا اور وہ ناحق قتل عام نہ ہوتا اور وہ بہت بڑا ظلم وستم نہ ہوا ہوتا تب بھی ممکن تھا کہ بات ان مسائل پر منتج نہ ہوتی۔
صحیفہ امام، ج ۱۵، ص ۱۹۷