اس ميں ذرا بھی شک نہيں ہے کہ آج بھی مغربی دنيا نے امام خمينی[رح] کی شخصيت کے تمام پہلوؤں کو نہيں سمجھا ہے۔ البتہ مغرب نے کوشش کی ہے کہ دو لحاظ سے امام کی شخصيت کی دقيق، جامع اور مکمل جانکاری حاصل کر پاۓ۔ پہلی يہ کہ امام کو پہچان کر انقلاب کے ابتدائی دنوں ميں اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے اور دوسری يہ کہ امام کی پہچان کرکے مستقبل ميں محتاط رہيں اور اگر انہيں خوبيوں کا حامل کوئی دوسرا شخص اسلامی دنيا ميں ابھرتا ہوا نظر آۓ تو اسے بروقت کنٹرول کيا جا سکے۔ اسی لئے ان کی کوشش ہے کہ امام کی شخصيت کے بارے ميں زيادہ سے زيادہ اطلاعات جمع کريں۔
ابتدا ميں امريکہ کو ايسے افراد کی تلاش تھی جو امام کے بہت قريب ہوں، يعني يا تو امام ان کی بات مانتے ہوں يا انہيں اپنے نزديک رہنے کی اجازت دے ديں تاکہ ان سے امام کے متعلق اندر کی خبريں حاصل کر پائيں کيونکہ پوری تاريخ سے لے کر اس وقت تک کسی ايسے شخص سے ان کا سامنا نہيں ہوا تھا۔
13 بہمن سن 1357 ہجری شمسی کو ايسوسی ايٹڈ پريس ميں چھپنے والی خبر پوری دنيا ميں پھيل گئی۔ اگرچہ اس خبر کو دينے والا ايک ايرانی ہے مگر امام کی شخصيت کے بارے ميں پہچان اور امام کے مقابلہ کرنے کے طريقوں کے بارے ميں ان کی مدد کرتا تھا۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد معلوم ہوا کہ حتی کہ حضرت امام خمينی(رح) کے نزديک ترين پيروکار اور ساتھی خواہ وہ تحريک کے آغاز سے ہمراہ تھے خواہ وہ انقلاب کی کاميابی کے بعد خاص شرائط کی بنا پر اپنے ملک چلانے کےلئے ہمراہ تھے، يہ سب کے سب بيرونی دنيا والوں کےلئے امام کے ساتھی ہی تصور ہوتے تھے۔ يہ سب ساتھی امام کے مستقبل کے فيصلوں، سياست اور خاص طرح کے طور طريقوں سے بے خبر ہوتے تھے۔ امام کے ساتھيوں ميں سے کوئی بھی ارد گرد کے مسائل کے بارے ميں امام کے فيصلوں سے آگاہ نہيں ہو پاتا تھا۔