مومن کے اقتدار کا ایک عامل، اس کی شجاعت ہے۔ شجاعت یعنی خدا کے سوا کسی اور سے نہ ڈرنا، اور یہ جذبہ صرف اور صرف دین پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے، یا یہ تعبیر دیگر اگر چہ قوہ غضبیہ (غصہ کی قوت) کو تحریک دیتا ہے لیکن پھر بھی اس کا عکس العمل، عقل و اور دین کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا اس طرح انسان، ایک بہادر کی طرح میدان میں آتا ہے۔ اور اگر عکس العمل، دین اور عقل کی روشنی میں نہ ہو، یا یہ کہ ہوای نفس اور احساسات کی بنیاد پر ہو تو اس صورت میں احمقانہ اور جاہلانہ شجاعت اور بہادری، انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے، اور اگر بالکل ہی کوئی جواب نہ دے تو پھر وہ بزدل اور ڈرپوک ہوجاتا ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) دین اور عقل کو بروئے کار لاکر دشمن کے مقابلے میں ایک ناقابل تعریف اور بے مثال شجاعت اور اقتدار حاصل کرچکے تھے اور یہاں تک کہ آپ اس آیہ مبارکہ: الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم و لا ہم یحزنون؛ بے شک اولیاء اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کی خاطر غمگین ہوتے ہیں۔(یونس/162) کا مصداق بن چکے تھے، حضرت امام (رح) نے شجاعت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور امام (رح) کے اقتدار اور ان کی کامیاب مدیریت کا ایک راز آپ کی شجاعت ہی تھی۔ آپ نے اصفہان کے ان چار خطیبوں اور مشہور شخصیتوں کے دوران؛ کہ جو شاہ ایران، اور ساواک ایجنسی کے خوف سے آپ کے ساتھ خفیہ ملاقات کرنے کےلئے آئے تھے، فرمایا:
شاہ اور ان کے ساتھیوں کی طبیعتیں اور مزاج وحشی اور پاگل کتوں جیسے ہیں۔ اگر آپ پاگل کتے کے سامنے ہاتھ کھڑے کرکے جائیں تو یقینا وہ آپ کو کاٹ لے گا اور اگر اس کا مقابلہ کریں گے تو وہ دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ اسی طرح اگر تم نے ان کے سامنے میدان خالی چھوڑ دیا اور ان سے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے تو وہ تم پر حملہ کریں گے اور پھر جب تک تمہیں، اپنے انتقام کی آگ میں جلا نہیں لیں گے اس وقت تک تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ وہ پہلے تو تم سے اس بات کا تقاضا کریں گے کہ آپ فلاں فلاں باتوں سے بعض آجائیں، اگر آپ نے ان کی یہ شرط مان لی تو پھر مزید کہیں گے کہ اب اس موضوع پر بھی کوئی بات نہ کریں، اور جب یہ بات مان لی تو پھر یہ کہیں گے کہ اب فلاں شخص کو دعا کریں اور اس کے بعد تم سے ہر جائز اور ناجائز کی تایید چاہیں گے اور یہاں تک کہ تم سے ہر اس بات کا تقاضا کرنے لگیں گے کہ جس میں ساواک کو فائدہ ہوگا، لہذا مطمئن رہیں کہ وہ تمہیں ساواک کا ایک ایجنٹ بناکر سانس لیں گے۔ لہذا آخر کار، ہمیں کسی نہ کسی مقام پر ان کے سامنے قیام کرنا ہی پڑے گا اور کتنا اچھا ہے کہ ہم ابھی اسی منزل پر ہی ان کے خلاف قیام کرلیں کہ اس صورت میں وہ تم سے ڈر جائیں گے اور تمہارے راستے سے ہٹ جائیں گے اور اس صورت میں تم لوگ یقینا کامیاب ہوجاؤگے۔(درسایہ آفتاب، ص 89)
اس بیان میں امام (رح) نے دشمن کا مقابلہ کرنے کا ایک بنیادی ترین طریقہ، بیان فرمایا ہے، یعنی آپ (رح) نے دشمنان اسلام کی طبیعت اور ان کی عادت کو بیان کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شجاعت کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اصلی ترین ہتھیار کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ امام (رح) نے مئی 1963ء میں شاہ ایران اور مستکبر آمریکہ کے مقابلے میں قیام کیا اور اسی اسلحہ کے ذریعے، آپ اس قابل ہوئے کہ آپ (رح) ان کو زیر کریں۔