جماران

جماران؛ انقلاب کا میوزیم

جماران اس وقت ایران کے سیاستدانوں کا قبلہ ہے

جماران آج بھی اپنی پرانی ساخت کو البرز کے جنوب میں محفوظ رکھے ہوا ہے۔ وہا ں پر ان لوگوں کے لئے ایک مقام ہے جو اپنے بچپن کے زمانہ کے باریک کوچوں کی یادوں کے بارے میں فکر کرتے ہیں۔ پہاڑ کے ڈہلواں حصہ میں گھر بنائے گئے ہیں اور بلند قامت چنار کے درخت اس مصروف محلہ کے قدیم ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ لیکن جماران اپنے ایک دوسری یادیں بھی رکھتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے 60/ کی دہائی کو بیسویں صدی کے بزرگ انسان کے عشق سے لبریز دل کے ساتھ جماران کے اوپری حصہ کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اپنے رہبر کا چند لحظہ کے مختصر دیدار سے مشرف ہوں۔ آج بھی جماران کے گلی، کوچہ یادوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جماران انقلاب کا میوزیم ہے۔ انقلابیوں کی قربانیوں کا میوزم، 60/ کی دہائی کے انقلاب کا میوزیم، برسوں پہلے جماراں کے دیہاٹ والے اپنے امام کے دیدار کے مشتاق ہیں۔ امام کے قریبی افراد نے امام سے ملاقات دوسرے دنوں پر موکول کردی، ان کا خیال تھا کہ امام (رح) خستہ ہیں اور ملاقات کے حالات فراہم نہیں ہیں۔ لیکن امام (رح) واپس آتے ہیں اور جماران کے نصف آمادہ حسینیہ کی بلندی پر جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں:

"آج رات میں بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کرکے بہت خوش ہوں، میں جماران والوں کی زحمتوں کا شکر گذار ہوں کہ ان کو کافی زحمت ہوئی جبکہ میں ان کی کوئی خدمت نہیں کر سکا" (صحیفہ امام، ج 12، ص 305)

رات کی اس مختصر تقریر کے بعد جماران کا چھوٹا اور خاکی حسینیہ انقلاب اسلامی کا بڑا مرکز بن گیا۔ وہی مرکز جو پورے 9/ سال تک سخت ترین حالات سے دوچار رہی پھر بھی اس کے واحد مقرر کی تقریر کو نشر کرنے سے غافل نہیں رہا۔ امام خمینی (رح) نے اسی حسینیہ سے آخری صدی کی طویل ترین جنگ کی رہبری کی اور اس جگہ کو شہداء اور شاہدوں کی عشق بازی کی تعلیم کی ۔( وہ اپنے مستانہ قہقہہ میں عند ربہم یرزقون تھے)

امام اس چھوٹی جگہ پر آخر کار 9/ سال عارفانہ زندگی گزارنے کے بعد دنیا کو خداحافظ کہہ کر ابدی منزل کی طرف روانہ ہوگئے اور دنیا کو جماران کا خیرہ بنادیا۔ جماران اس وقت ایران کے سیاستدانوں کا قبلہ ہے اور جو لوگ خمینی (رح) کی راہ کے گرویدہ ہیں وہ جماران میں قدم رکھیں اور جانیں ان کے پیر کیسے تھے اور کس طرح زندگی گزاری ہے۔ تاکہ انھیں یاد رہے کہ ان کی حکومت اور اقتدار کے اصول و فروع جماران کے باریک کوچوں میں کس طرح لکھے گئے ہیں اور جب تک تاریخ ہے جماران بھی ہے اور تاریخ جماران کو فراموش نہیں کر پائے گی۔

جماران کے محلہ نالہ و شیون اور عاشقانہ مستی کی یاد دلاتا ہے کہ اس وقت سڑکوں کی بلندیاں اس محلہ پر جاکر تمام ہوتی ہیں تاکہ عمیق راز تک پہونچ سکیں اور خمینی (رح) کی یاد کو ملاحظہ کریں۔ ایسا عظیم عارف جس نے 60/ کی دہائی کے اہم ترین حوادث کی بھٹی میں زندگی گزار رہے تھے جب کہ ملک جنگ میں گرفتار تھا اور آپ انقلاب کی قیادت کر رہےتھے۔ اسی طرح آپ نے اپنی عارفانہ زندگی آگے بڑھائی۔  عرفانی اشعار پڑھنے  اور اخلاقی نصیحتوں کے کہنے پر اصرار اور امام (رح) کا اپنی بہو کو جواب اس دعوا کا نمونہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

بسمہ تعالی

آخر کار فاطی (سید احمد خمینی کی زوجہ خانم فاطمہ طباطبائی) کا اصرار غالب آیا اور میں نے اس خشک کنویں سے ان کے لئے کیچڑ بھرا چند بالٹی پانی کھینچا۔ میں نہ شاعر تھا اور نہ ہوں اور نہ ہی اس کا دعویدار ہوں۔ اس وقت بوڑھا ہوچکا ہوں اور اگر بالفرض کچھ رکھتا بھی تھا تو سب ذہن کی تہہ میں چلا گیا ہے میں سیاہ دفتر اور گناہوں کے بوجھ کے ساتھ اس کی بارگاہ میں بخشش و رحمت کی امید کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ اعتراف کررہا ہوں کہ میرے نامہ عمل میں سفید نکتے نہیں ہے۔ چونکہ میری خیالی نیکیاں اور صوری طاعتیں گناہ ہیں جو خودپسندی اور خود پرستی سے آگے نہیں بڑھی ہیں۔ اور ظلمانی حجابات اور شیطانی وسوسے تھے۔ ظلمات بعضہا فوق بعض؛ کہ مہم معاصی سے زیادہ استغفار کریں، میں خود اور اپنے عمل سے مایوس ہوں۔ لیکن خداوند عالم کے فضل اور اس کی رحمت کا امیدوار ہوں اور اس کی نعمت واسطہ اور لامتناہی نعمت سے امید رکھتا ہوں۔

تو اے بیٹی! ہوں میں آ، اور خود سے سفر کر، یا کم سے کم سفر کا خیال رکھ اور جو کچھ ہم نے طبل کی آواز سنی ہےوہ اندر سے خالی تھا اور میں نے جو کچھ کہا وہ صرف چرب زبانی تھی۔ خداوند عالم تجھے اپنی رحمت سے تایید کرے تا کہ لکھنے والے کی طرح اپنی عمر بیہودہ باتوں میں صرف نہ کر۔

29/ شعبان 1405 ھ ق

روح اللہ الموسوی الخمینی

(صحیفہ امام، ج 19، ص 264)


ای میل کریں