ایک شخص نے ایک شوشتری بوڑھے کے لئے امام خمینی (رح) کے سامنے سفارش کی۔ جب امام (رح) حرم امام علی (ع) میں داخل ہونے لگے تو اپنا قدم دہلیز کے اندر رکھنے سے پہلے مڑ کر فرمایا : آقا فرقانی! کل نو بجے صبح مجھے اس شخص کے بارے میں یاد دلوانا۔
دوسرے دن صبح جب میں اپنے گھر سے نکلا تو دیکھا کہ طلاب کرام دھاڑیں مار مار کر زار و قطار رو رہے تھے۔ اور امام خمینی (رح) کے بیٹے احمد آقا بغیر عمامہ کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ سوال کرنے پر معلوم ہوا کہ امام (رح) کے بیٹے سید مصطفی کو شہید کردیا گیا ہے۔ امام (رح) کو اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ لہذا احمد آقا، امام (رح) کے پاس گئے تا کہ وہ اس خبر کو اس طرح امام (رح) تک پہچائیں کہ امام (رح) پر زیادہ ناگوار نہ گزرے اور امام کسی اور مشکل سے دوچار نہ ہوجائیں۔ لیکن جب وہ امام (رح) کے سامنے حاضر ہوئے تو اس وقت اپنے اشکوں کو روک نہ سکے۔
امام (رح) نے ایک مرتبہ اپنا رخ موڑ کر پوچھا، احمد کیا ہوا کیا مصطفی مرگیا ہے؟ اہل آسماں سب مرجائیں گے زمین پر کوئی بھی باقی نہیں رہے گا، اور سب کے سب مرجائیں گے، دوستوں تم اٹھو اور اپنے معمول زندگی کو انجام دو۔ اس کے بعد خود اٹھے اور اپنی آستینوں کو کہنیوں کے اوپر چڑہایا اور وضو کرنے لگ گئے جب وضو سے فارغ ہوئے تو تلاوت قرآن میں مشغول ہوگئے۔ کچھ دیر بعد علماء اور طلاب کی کثیر تعداد گھر کے صحن میں تسلیت کہنے کے لئے اکٹھی ہوگئی۔ اس وقت امام (رح) بھی وہاں پر تشریف لائے۔ اس وقت مجھے نو بجے والا وعدہ یاد آیا۔ لیکن میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اس وقت امام (رح) کی اپنی طبیعت خراب ہے اور اگر میں انہیں وہ وعدہ یاد دلاؤں تو یہ مناسب بات نہیں هے۔
میں دروازے پر کھڑا تھا کہ اچانک میں دیکھا کہ امام (رح) میری طرف غور سے دیکھ رہی ہیں میں فورا امام (رح) کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور عرض کی ارشاد ہو آقا! کوئی حکم ہے؟
فرمایا: آپ کے ذمہ نہیں تھا کہ آج نو بجے آپ مجھے اس شیخ کے بارے میں یادآوری کروانی ہے! اور دیکھیں اب نو بج چکے ہیں۔ آپ نے یادآوری کیوں نہیں کروائی؟
اس وقت میں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر مارے اپنا منہ پیٹ لیا، اس وقت تک تو میں سوچ رہا تھا کہ امام (رح) کے سامنے نہ روؤں لیکن اس کی بعد میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور زار و قطار رونے لگا۔ امام (رح) نے فرمایا: یہ کیا بات ہے ! اٹھو! اور میرے ساتھ آؤ! لوگوں کے درمیان سے گزر کر ایک کمرے میں گئے اور الماری سے کچھ پیسے اٹھائے اور انہیں ایک لفافے میں ڈالا اور لفافہ میرے ہاتھ میں اس طرح دیا کہ کوئی سمجھ نہ سکا کہ امام (رح) نے کیا کیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا: اسی وقت جاؤ اور شیخ شوشتری کو یہ لفافہ دے آؤ! اور میری طرف سے ان کی خیر خیریت اور حال احوال پوچھنا۔
جب میں شیخ شوشتری کے ہاں پہنچا اور وہ لفافہ اس کے حوالے کیا اور امام کی طرف سے ان کی خیریت پوچھی تو انہوں نے بھی اپنا منہ پر ماتم کرنا شروع کردیا اور کہا: ان کا ابھی ابھی بیٹا فوت ہوا ہے اور ان کا دل ابھی تک خون ہے لیکن اس کے باوجود؟!!!چ
* حجت الاسلام فرقانی