انسان کا اپنے جسم سے رابطہ
جب انسان اپنے اعضائے بدن کو دیکھتا ہے، تو ممکن ہے اس کے ذہن میں جو سوال پیش آئے وہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے اعضاء کے درمیان کس طرح کا رابطہ ہے؟ کیا وہ اپنے اعضاء بدن کا خود ہی مالک ہے؟ اور اگر مالک ہے تو کس طرح کی مالکیت ہے؟ کیا حقیقی مالکیت ہے یا اعتباری؟ یا پھر کسی صورت مالکیت ہی نہیں رکھتا بلکہ ایک قسم کا اعضائے بدن پر محدود کنٹرول رکھتا ہے؟ اگر تسلط بھی ہے تو کس طرح کا تسلط ہے؟ کیا لا محدود تسلط ہے یا اعضائے بدن پر محدود تسلط ہے؟
امام خمینی (رح) کا نظریہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر تسلط رکھتا ہے۔ یعنی انسان اپنے اعضائے بدن کا حقیقی مالک نہیں ہے کیونکہ حقیقی مالکیت دائمی حق کا نام ہے کیونکہ شخص کے اپنی ملک کے حدوث و بقاء میں اس کی توانائی اور سلطنت کے زیر اثر اور دوسری طرف مذکورہ ملکیت میں شخص کے دوام اور بطور مطلق وابستگی کی ایجاد کرتا ہے۔ اس طرح کی مالکیت کے لئے جو مثال دی جاسکتی ہے، خدا کی اپنی مخلوقات کی نسبت مالکیت ہے اور انسان کی مالکیت اپنی ذہنی صورتوں پر۔ مالک اس طرح کی مالکیت رکھنے کے باوجود اپنی ملک میں ہر قسم کا تصرت کرسکتا ہے۔
واضح ہے کہ انسان اور اس کے اعضائے بدن کے درمیان اس طرح کا رابطہ قائم نہیں ہے کیونکہ انسان اپنے اعضائے بدن پر اس طرح کی توانائی اور مکمل سلطنت نہیں رکھتا۔ انسان اعضاء کو ایجاد کرنے کی توانائی نہیں رکھتا خواہ ابتدائی لحاظ سے ہو یا دوبارہ ایجاد کرنے کے لحاظ سے اسی طرح اعضائے بدن کی ایجاد اور اس کی بقا اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بنابریں انسان کا اپنے اعضائے بدن کا مالک ہونا اس طرح کی مالکیت کا حامل نہیں ہے۔ بعد کی مالکیت اعتباری ہے۔ کیا انسان اپنے اعضاء کی نسبت اعتباری مالکیت رکھتا ہے؟ اعتباری مالکیت بھی نہیں رکھتا؛ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملکیت اعتباری عرضی امور سے ہے اور اسباب مملکت کی محتاج ہے۔ بنابریں اس بات کے مد نظر کہ کوئی چیز بھی کسی کی ذاتی مالکیت نہیں ہے بلکہ ایک شیء کی مالکیت کے انتساب میں کچھ امور کی محتاج ہے۔ اس لئے انسان کے اعضاء و جوارح کس کی ملکیت شمار نہیں ہوتے۔ دوسرے اشیاء کی ملکیت خاص اسباب کے قالب میں زائل ہونے کے قابل ہے اور یہ اس حال میں ہے کہ انسان کے اعضاء جب تک بدن سے متصل ہیں، فرد سے زوال اختصاص کی قابلیت نہیں رکھتے بلکہ بدن سے جدا ہونے کی صورت میں بھی اسی فرد سے منسوب و مستند ہوگا۔ تیسرے: افراد اپنی ملکیت میں ہر طرح کا استعمال کرنے کی اجازت رکھتے ہیں اور یہ اس حال میں ہے کہ انسان ہر طرح کے تصرف کا حق نہیں رکھتا (جس طرح مالک اپنی مالکیت میں کرتے ہیں) یعنی انسان اس طرح کا اپنے اعضاء و جوارح میں تصرف نہیں کرسکتا۔
بنابریں انسان اپنے اعضائے بدن کی نسبت کسی قسم کی مالکیت (خواہ حقیقی ہو یا اعتباری) نہیں رکھتا۔ رہی بات تسلط کی تو کیا انسان اپنے اعضاء و جوارح پر تسلط رکھتا ہے؟ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: انسان اپنے اعضاء و جوارح پر تسلط رکھتا ہے اور اس کا تسلط محدود ہے اور آپ کی دلیل بنائے عقلاء اور قاعدہ تسلیط ہے۔ یعنی انسان کا اپنے اعضاء و جوارح پر تسلط ایک عقلی امر ہے اور اس کی تمام عقلاء تاکید کرتے ہیں۔ آپ نے اس کی مثال دی ہے کہ انسان جس طرح اپنے مال پر تسلط رکھتا ہے اسی طرح اپنے نفس پر بھی تسلط رکھتا ہے اور آپ کا یہ کلام قاعدہ تسلیط قبول کرنے پر مبنی ہے۔ یعنی "الناس مسلطون علی اموالھم و انفسھم" لوگ اپنے اموال اور نفوس پر مسلط ہیں۔ یہ تسلط اموال کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ محدودیت بھی ہے اس وقت اپنے اعضاء میں تصرف کرسکتا ہے کہ کوئی عقلی رکاوٹ اور دوسرے شارع نے بھی اسے منع نہ کیا ہو۔