زندگی میں ایمان کے کچھ اہم فواد

زندگی میں ایمان کے کچھ اہم فواد


مؤمن اپنے خدا کو پہچان چکا ہے اور اس کے علم و قدرت اور لطف و کرم پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ خدائے رحمن و رحیم کو پوری کائنات کا مالک سمجھتا ہے نیز اس کی قدرت اور ارادہ کو ہر جگہ نافذ دیکھتا ہے۔ خدا کو ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر چیز کا عالم (جاننے والا) سمجھتاہے۔ مؤمن کو یہ یقین ہے کہ خداوند عالم اپنے بندوں کی خیر و صلاح چاہتا ہے، وہ رحمان و رحیم ہے اور وہ اپنے فیض کو کبھی بھی اس سے دریغ نہیں کرے گا اس لئے اس کے پاس اطمینان قلب موجود ہے۔ اس کے یہاں اضطراب اور پریشانی کا نام و نشان نہیں ہوتا، اس کا دل مسلسل خداکو یاد کرتا ہے

زندگی میں ایمان کے کچھ اہم فواد

1۔سکون
مؤمن اپنے خدا کو پہچان چکا ہے اور اس کے علم و قدرت اور لطف و کرم پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ خدائے رحمن و رحیم کو پوری کائنات کا مالک سمجھتا ہے نیز اس کی قدرت اور ارادہ کو ہر جگہ نافذ دیکھتا ہے۔ خدا کو ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر چیز کا عالم (جاننے والا) سمجھتاہے۔ مؤمن کو یہ یقین ہے کہ خداوند عالم اپنے بندوں کی خیر و صلاح چاہتا ہے، وہ رحمان و رحیم ہے اور وہ اپنے فیض کو کبھی بھی اس سے دریغ نہیں کرے گا اس لئے اس کے پاس اطمینان قلب موجود ہے۔ اس کے یہاں اضطراب اور پریشانی کا نام و نشان نہیں ہوتا، اس کا دل مسلسل خداکو یاد کرتا ہے اور اسی سے مانوس رہتا ہے۔ مؤمن نے اپنے وجود کی کشتی خدا کے حوالے کردی ہے ،اسے یقین ہے کہ وہ اس کی ہدایت و رہنمائی کے سہارے دنیا کے تمام طوفانوں اور ہر قسم کی موجوں کا مقابلہ کر کے نجات حاصل کرسکتا ہے اور سعادت ابدی کے ساحل تک پہنچ سکتا ہے۔
مؤمن زندگی کے مقصد اور اس مقصد تک پہنچنے کے راستے سے واقف ہے ، اسے یقین ہے کہ وہ اس راستہ کو طے کرنے کے بعد اپنے آخری مقصد اور ابدی سعادت تک پہنچ جائے گا لہٰذا وہ پر سکون رہتا ہے اور اس کا یہ سکون بھی عمیق ہوتا ہے، وہ پُر سکون کیوں نہ ہو؟ اس کے پاس ایک ایسا خدا ہے جو تمام نیکیوں اور خوبیوں کا مرکز ہے۔ وہ کیوں پریشان اور مضطرب ہو؟ جبکہ اسے یقین ہے کہ اسے خداوندعالم کی غیبی امداد حاصل ہے اور وہ اکیلا اور بے یار و مددگار نہیں رہے گا۔
مگر کافر کا کیا حال ہے؟ کافر کی نگاہ میں دنیا اور اس کے حادثات متلاطم و طوفانی سمندر جیسے ہیں جس میں بلا و مصیبت کی موجیں اس پر ہر طرف سے حملہ کرتی ہیں۔ نہ کشتی نجات ہے اور نہ ہی کوئی آگاہ و بصیر اور دردمند نجات دینے والا ہے، دنیا کے حادثات اس کی نظر میں ایک دوسرے سے مختلف اور بے مقصد ہیں۔ کافر اس طوفانی دریا کے بھنور میں اپنے کو کمزور و ناتواں سمجھتا ہے جس پر ہر طرف سے موجیں ٹوٹی پڑرہی ہیں وہ ایسا خستہ حال تیراک ہے جو کسی طاقت ور ہمدرد کو نہیںپہچانتا اور ہر اٹھتی ہوئی نئی موج کو دیکھ کر لرز جاتا ہے اور ہر آواز کو دشمن کی آواز سمجھتا ہے، اسے کسی بھی چیز کا آسرا واطمینان نہیں ہے؟ اور ہو بھی تو کیسے؟ جبکہ وہ سب کو بربادی اور ہلاکت کے دہانے پر پہنچا ہوا سمجھتا ہے۔
وہ کیسے پر سکون ہوسکتا ہے؟ جبکہ اسکے دل کی گہرائیوں میں غم و غصہ، شکست و ناکامی، دشمنی اور کینہ، بیماری اور غربت، بے توجہی اور بے مہری بڑھاپے اور موت کے خوف ۔۔۔ کا ایک ڈھیر لگا ہوا ہے۔ کافر کیسے پر سکون رہ سکتا ہے؟ اسے اپنے لئے اس دنیا میں کوئی مستحکم پناہ گاہ اور سچا ہمدرد نہیں ملا کہ اسے اس کا آسرا ہو اور اس کے ذریعہ اپنے پریشان دل کو پر سکون کر سکے۔
چونکہ کافر کے پاس مضبوط عقیدۂ حق کا فقدان ہے اس لئے اس کی زندگی کا کوئی صحیح اور مستقل مقصد نہیں ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل محنت و مشقت کرتا رہے وہ اپنے اور پوری دنیا کے وجود کو ہی فضول اور بے مقصد سمجھتا ہے تو وہ پھر بھلا کس طرح ایک بیش قیمت اور مستقل مقصد کو تلاش کرسکتاہے؟ جس کا خاتمہ بالکل نابودی اور ہلاکت کے علاوہ کچھ نہیں ہے وہ کیسے پر جوش اور پر سکون رہ سکتا ہے؟ کافر چونکہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ آنے والے زمانہ کو تاریک دیکھتا ہے۔ موت کے خیال اور تصور سے ہی لرزنے لگتا ہے اور مسلسل اضطراب اور گھبراہٹ کا شکار رہتا ہے۔
2۔صبر و استقامت (پائیداری)
انسان کی زندگی میں ہزاروں مشکلات، پریشانیاں، رنج و مصیبت، محرومی، اور ناکامیاں، بیماریاں اور کمزوریاں آتی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے اندازسے انسانی زندگی پر بہت اہم اثر پڑتا ہے، ان حادثات میں سے کچھ ایسے ہیں جن سے بچا جاسکتا ہے اور بعض سے بچائو ممکن نہیں ہے۔ جو حادثات رونما ہوتے ہیں ان میں بھی کچھ قابل علاج ہیں اور کچھ قابل علاج نہیں ہیں۔ اور ان تمام مرحلوں میں کافر اور مسلمان ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔
مؤمن ایمان کی طاقت اور انبیائے کرام(ع) کی تعلیمات کے سہارے روکے جانے والے حادثات کو دوسروں کے مقابلہ میں آسانی سے روک سکتا ہے، اس کے خطرات کو کم کرسکتا ہے۔ اس طرح جو حادثات رونما ہوچکے ہیں ان کا علاج اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اور اس طرح وہ دوسروں کے مقابلہ میں ان مشکلات اور پریشانیوں پر آسانی کے ساتھ کنٹرول حاصل کر سکتا ہے چونکہ مؤمن کا مقصد الٰہی اور معین ہے اور وہ ہر حال میں اپنے فریضہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ دوسروں سے زیادہ بہتر اندازمیں مشکلات کے سامنے صبر و استقامت سے کام لے کر ان کو حل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے وہ اس راستے میں کسی طاقت سے نہیں ڈرتا ہے اور پہاڑ کی طرح اٹل رہتا ہے۔
جن حادثات کو عام طور سے روکا یا ٹالا نہیں جاسکتا ہے ان کے بارے میں ایک مؤمن کا رد عمل کیا ہوتاہے؟ جیسے بڑھاپا، ناقابل علاج بیماریاں، حادثات، ایکسیڈنٹ، حوادث غیر مترقبہ، اچانک کسی عزیز کی موت وغیرہ، پختہ ایمان، ایسے سخت حالات میں انسان کو پائیدار اور ثابت قدم رکھتا ہے، مؤمن ان حادثات کے سامنے اتنا پائیدار اور ثابت قدم ہوتا ہے جیسے کوئی حَسین اور شریں واقعہ رونما ہوا ہو۔ مؤمن کو معلوم ہے کہ دنیا کے حادثات بے حساب وکتاب اور بلا وجہ نہیں ہیں اور اگر انسان اپنے فریضہ کو ادا کرنے کی فکر میں ہو تو وہ تمام تلخ اور شیرین حادثات سے اپنے نفس اور اخلاقی فضائل کی تکمیل اور اخروی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مؤمن ایسے حادثات کے موقع پر اپنا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ پر سکون رہتا ہے اور جو کچھ خداوندعالم چاہتا ہے اس پر صابر و شاکر رہتا ہے اسے یقین ہے کہ اس کے اس صبر و خوشی اور محنت ومشقت سے اس کے فضائل و کمالات میں مزید نکھار پیدا ہوگا اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ وہ صبر و رضا اور اپنی محنت و مشقت کا اجر آخرت میں اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا۔
اس ایمان و عقیدہ کی بنا پر مؤمن دنیا کے حادثات کا کھلے دل سے استقبال کرتا ہے اور شکوہ و شکایت نہیں کرتا اور جہاں تک اس کے لئے ممکن ہو پہاڑ کی طرح ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ مؤمن انسان خدا و رسول(ص) اور آخرت پر ایمان کی وجہ سے اور انبیائے کرام(ع) اور ائمہ طاہرین(ع) کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنے کی وجہ سے مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔
۱۔وہ اپنی ہوا و ہوس اور خواہشات نفس پر مکمل قابو رکھتا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اس لئے جو کام اس کی تباہی وذلت اور بدبختی کا سبب بن سکتے ہیں ان سے بالکل دور رہتا ہے۔
۲۔خداوند عالم کی غیبی نصرت و امداد پر اسے جو اعتماد ہے اس کی بنا پر اپنے فریضہ کی ادائیگی کی راہ میں پیدا ہونے والی مشقتوں کو برداشت کرتا ہے اور اپنے عزم و حوصلہ اور سعی پیہم کے ذریعہ متوقع حادثات اور نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔
۳۔ صبر و استقامت کامل کے ساتھ حوادث کا مقابلہ کرتا ہے اور اُن کے حل و رفع کے لئے قرار واقعی کوشش کرتا ہے۔
۴۔ سخت اور مشکل حادثات اور مصائب میں ہمت نہیں ہارتا اور اپنے قلبی سکون و اطمینان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور خدا کی خوشنودی و رضا کے لئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔مگر کافر کاکیا حال ہوتا ہے؟
بھلا کافر کس طرح صبر و استقامت سے کام لے سکتا ہے؟ اس کے پاس تو ایمان کے بلند درخت کا کوئی بھی پھل نہیں ہے۔
کافر اپنی نفسانی خواہشات کا اسیر ہوتا ہے اور یہ ہوس اسے ہر لمحہ کسی نہ کسی طرف کھینچ لیتی ہے، کافر اپنی نفسانی خواہشات کے سامنے ذلیل ہوکر ہتھیار ڈالے رہتا ہے اور وہ ان کو بآسانی اعتدال کے راستے پر نہیں لاسکتا ہے اور نہ ہی انھیں انحراف سے بچا سکتا ہے، کافر کے پاس مشکلات سے نمٹنے کے لئے کوئی قابل اعتماد (مرکز نہیں ہے جس کے سہارے وہ ثابت قدم رہ سکے اسی بنا پر مشکلات کا سامنا کرتے وقت وہ حوصلہ ہار جاتا ہے، وہ مقصدتک پہنچنے سے مایوس ہوجاتا ہے، کافر ناقابل علاج و ناقابل تلافی حادثات جیسے بڑھاپا، خطرناک بیماری، موت کا قریب ہونا، کسی عزیز کا انتقال یا مال کی بربادی کے موقع پر صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور اسے تمام راستے بند نظر آتے ہیں وہ غم و غصہ میں ڈوب جاتا ہے اور جزع و فزع (بے تابی ) کرنے لگتا ہے اس لئے کافر ایسے حالات سے بالکل بیزار ہوتا ہے۔ مگر اس کے بس میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
کافر ،جس کی زندگی کا مقصد اس کے لئے معمولی اور حقیر لذتیں، دنیوی کامیابی، کھانا، پینا اور سوناوغیرہ ہوتا ہے وہ ایسے حادثات اور مشکلات کے سامنے کیسے استقامت کرسکتا ہے جو نظم زندگی کو درہم و برہم کردیتے ہیں۔
3۔جسم اور روح کی حفاظت
چونکہ مرد مؤمن بصیرت کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہے اور اپنے تمام کام خدا اور اس کے سچے وعدوں پر یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ وہ دوسروں سے زیادہ پر سکون ہوتا ہے اور نفسیاتی بیماری میں بہت کم مبتلا ہوتا ہے، ہمت نہیںہارتا اپنے دل میں گھبراہٹ اور پریشانی کو داخل نہیں ہونے دیتا ہے اس بنا پر اسے وہ جسمانی بیماریاں نہیں ہوتی جن سے بعض نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور ایمانی طاقت اور ایمانی اقدار کی قدر و قیمت کی وجہ سے مؤمنین کا علاج بھی آسانی سے ہوتا ہے کیونکہ روح اور جسم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ چونکہ مؤمن حفظان صحت و روح و جسم سے متعلق انبیائے کرام(ع) کی ہدایات سے واقف ہے اور انہیں صحیح سمجھتا ہے اس لئے ان پر عمل کرتا ہے اس طرح اس کا جسم اور روح دونوں ہی صحت مند اور تندرست رہتے ہیں۔
مگر کافر کا کیا حال ہے؟ چونکہ مرد کافر خدائے علیم و قدیر پر ایمان کی دولت سے بے بہرہ ہے اور وہ اپنے اور پوری کائنات کے وجود کو فضول سمجھتا ہے اس لئے وہ کھوکھلے پن اور بے مقصد ہونے کا احساس کرتا ہے اس لئے اس کی روح کو چین، سکون اور ثبات حاصل نہیںہوتا ہے اور ایک معمولی حادثہ بھی اس کے پورے وجود کو مایوسی اور گھبراہٹ کا شکار بنا سکتا ہے اور اسے جسمانی بیماریوں سے دوچار کرسکتا ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ نفسیاتی دبائو یا بیماری اسے کسی جرم یا گناہ کامرتکب بنادے تا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنی اندرونی گھبراہٹ پر کچھ پردہ ڈال سکے۔ کافر، مؤمن سے کہیں زیادہ نفسیاتی بیماریوں اور اندرونی گھبراہٹ اور جسمانی و روحانی امراض کا شکار رہتا ہے، علاوہ ازیں جو ہدایات پیغام الٰہی پر استوار ہیں ان پر وہ اپنی صحت کے تعلق سے یقین نہیں رکھتا اور صحت سے متعلق جن قیمتی اصولوں پر مؤمنین عمل کرتے ہیں ان پر وہ ایمان نہیں رکھتا اس لئے بہت جلدہی وہ مشکلات سے ٹکرانے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور زیادہ تر نفسیاتی بیماریوں یا روحانی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے

ای میل کریں