نبی اکرم (ص)

نبی اکرم (ص) کا صبر

دنیا میں نبی پاکﷺ سے زیادہ کوئی صابر نہیں اور خود نبی پاکﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے صبر کے معدن کے طور پر مبعوث کیا گیا

تحریر: عبدالحمد منتظر

 

آغازِ خلقتِ بشریت سے آج تک انسان نے ہر مشکل کا مقابلہ صبر سے کیا ہے۔ تاریخِ بشریت میں کوئی بھی شخصیت صبر کے بغیر کامیاب نہیں ہوئی۔ تاہم بعض شخصیات کے صبر کی داستانیں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہی شخصیات میں سے کچھ لوگ اتنے عظیم بھی گزرے ہیں کہ جو اپنے صبر کے باعث دوسروں کیلئے اسوہ حسنہ  بن گئے ہیں۔ اب ہم صبر سے مختصر آشنائی کے لیے کچھ معانی کو ذکر کرتے ہیں۔

 

صبر کے معانی

صبر یعنی اطمینان قلبی و ثبات نفس، صبر یعنی تمام تر مشکلات میں ثابت قدم رہنا، صبر یعنی اپنی خواہشاتِ نفس پر قابو پا لینا، صبر یعنی ناگوار حوادث میں مطمئن ہو کر خدا پر یقین کامل رکھنا، صبر یعنی تمام تر خواہشاتِ نفسانی سے بچتے ہوئے فقط مقصد تخلیق پہ عمل کرنا، صبر یعنی اطاعت خداوندی و عبادت الہیٰ، صبر یعنی غیر متزلزل ایمان۔ صبر اگر جنگ میں ہے تو شجاعت، صبر درمقابل گناہ ہے تو تقویٰ، صبر دنیا کے مقابل ہے تو زہد، صبر اگر ہوائے نفسانی کے مدقابل ہے تو عفت، صبر اگر عبادت میں ہے تو اطاعت اور ذکر خدا۔ المختصر یہ کہ صبر تمام تر کمالات کی ماں ہے اور تمام تر کمالات کا باپ ہے۔

 

اصطلاح میں صبر

قرآن کریم میں کلمہ صبر کو 104 بار تکرار کیا گیا ہے اور جو مرکز و محور صبر ہے، وہ نبی پاک ﷺ کی ذات ہے۔ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: الصبر من الایمان بمنزلة الرأس من الجسد،فاذا ذهب الراس، ذهب الجسد، و کذلک اذا ذهب الصبر، ذهب الایمان. "صبر کی ایمان سے وہی نسبت ہےو جو نسبت بدن کی سر سے ہے، اگر سر بدن سے گیا تو بدن کا جانا یقینی ہے اور اسی طرح اگر صبر گیا تو ایمان کا جانا یقینی ہے۔"[1] نبی پاکﷺ فرماتے ہیں: الصبر نصف الایمان، "صبر آدھا ایمان ہے۔"[2]

صبر کی اقسام

صبر کی مجموعی طور پر تین اقسام ہیں:

1۔ مصیبت میں صبر

2۔ اطاعت پہ صبر

3۔ معصیت سے صبر

 

حضورﷺ کا صبر

دنیا میں نبی پاکﷺ سے زیادہ کوئی صابر نہیں اور خود نبی پاکﷺ  فرماتے ہیں کہ مجھے صبر کے معدن کے طور پر مبعوث کیا گیا۔[3] تمام انبیاء و اولیاء کی تاریخ پر نگاہ کی جائے تو تمام امتوں پہ عذاب الہیٰ نازل ہوئے ہیں، لیکن یہ نبی پاکﷺ کے صبر کا نتیجہ ہے کہ خداوند متعال کا ارشاد ہے: ما کان الله لیعذّبهم و انت فیهم (انفال ۳۳) "جن کے درمیان نبی اکرم (ص) کی شخصیت ہے، ان پر عذاب نازل نہیں ہوگا۔" یعنی نبی پاکﷺ کا صبر ہے، جو امت کو عذاب سے اپنی پناہ میں لیے ہوئے تھا۔ ماضی میں اگر کسی نبی کو اس کی امت نے زیادہ تکلیفیں دیں تو انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی امت کے لئے عذاب کا تقاضا کیا، لیکن نبی پاکﷺ کے صبر کا یہ عالم ہے کہ نبی پاکﷺ اذیتیں دینے والوں کی مشکلات میں مدد کیا کرتے اور بیماری کی صورت میں ان کی عیادت کو تشریف  لے جاتے۔ اگر کسی نے نبی پاکﷺ کو زخمی کیا اور نبی پاکﷺ کے سر سے خون نکلنے لگا تو اس وقت بھی نبی پاکﷺ نے امت کے لیے دعا فرمائی کہ خدایا یہ نہیں جانتے، ان کو بخش دے۔ اسی طرح نبی پاکﷺ  کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تو بھی نبی پاکﷺ نے ان کے لیے عذاب نہیں مانگا۔

 

نبی پاکﷺ کو طرح طرح کی تکلیفیں ملیں، تب بھی نبی پاکﷺ نے امت کے لیے دعا فرمائی۔ ایک یہودی نبی پاک (ص) کے پاس آیا اور کہا تم میرے مقروض ہو اور میرا قرض ادا کرو، نبی پاک (ص) نے فرمایا، ایک تو آپ کا مجھ پہ کوئی قرض نہیں اور دوسرا اس وقت یہاں میرے پاس کچھ نہیں، اگر اجازت ہو تو گھر جاؤں اور کچھ پیسے تمہارے لیے لے کر آؤں۔؟ وہ عصبانی ہوگیا اور نبی پاک (ص) کی عبا کو کھینچا اور گردن کو پکڑ کر بہت بے حرمتی کرنے لگا، نبی پاک (ص) کے چہرے پر سرخی ظاہر ہونے لگی، لیکن پھر بھی نبی پاک (ص) نرمی سے گفتگو فرماتے رہے۔ جب مسلمانوں نے دیکھا تو قریب آکر عرض کی یارسول اللہ اگر آپ حکم کریں تو ہم اس کو بتاتے ہیں کہ کس طرح آپ کی بے حرمتی کی ہے۔ نبی پاک (ص) نے فرمایا یہ میرا دوست ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس سے کیسے بات کرنی ہے۔ وہ یہودی اس قدر نبی پاک (ص) کے صبر سے متاثر ہوا کہ فوراً کلمہ پڑھنے لگ گیا اور کہا اے نبی اکرم (ص) آپ قدرت رکھتے ہوئے بھی درگذر کرتے ہیں۔

 

ایک دن نبی پاک (ص) اپنی ایک بیوی کے ساتھ تشریف فرما تھے تو ایک یہودی وارد ہوا اور اس نے سلام کی جگہ کہا_السام علیکم (لعنت آپ پر) دوسرا یہودی وارد ہوا اور اس نے بھی یہی کہا کہ_السام علیکم(لعنت آپ پر)۔ نبی پاک (ص) خاموش رہے لیکن نبی پاک کی بیوی ناراض ہو کر غصے میں آگئیں اور کہا تم دونوں یہودیوں پہ لعنت ہو۔ تم دونوں بدکلام  ہو۔ اس موقع پر نبی پاک (ص) نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنے لہجے کو ملائم بنائیں اور تند الفاظ و سخت گفتگو سے پرہیز کریں، اگر آپ ان کو فقط یہ کہہ دیتیں کہ علیکم(آپ پر بھی) تو کافی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:

1۔ اصول کافی 90/2 با صبر

2۔ محجۃ البیضاء، 7/106

3۔ مناقب ابن شہر آشوب، 1/145

4۔ بحارالانوار، 16/226

5۔ مصباح الشریعہ 154

6۔ بحارالانوار، 71/422

7۔ سورہ انفال آیہ 33

8۔ تاریخ تحلیل اسلام

9۔ وسائل شیعہ ج2

[1] کلینی، اصول کافی، 90/2، کتاب الایمان و الکفر،باب صبر، ح 2

[2] محجة البیضاء، 7/106

[3] مناقب ابن شهر آشوب، 1/145؛ بحارالانوار، 16/226.

8. مصباح الشریعه/154؛ بحارالانوار، 71/422)

ای میل کریں