ابنا۔ فٹبال ہر چار سال ایک بار انتہائے عروج کو پہنچتا ہے اور پوری دنیا کو ایک جگہ اکٹھا کر دیتا ہے۔ قطر کا عالمی کپ بھی اس قاعدے کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن گذشتہ عالمی کپ کے مقابلوں کی نسبت ایک اہم فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ "قطر میں صہیونیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے"۔
اخبار گارڈین کے مطابق، چند روز قبل ایک ویڈیو رپورٹ نشر ہوئی جس میں مصری تماشائی ایک اسرائیلی نامہ نگار کو گھیر کر کہتے ہیں کہ وہ اپنی رپورٹ کا آغاز کرے۔ اور وہ سب اسی اثناء میں "فلسطین زندہ باد" کے نعرے لگانا شروع کرتے ہیں۔ یہ اس مسئلے کے ادراک کی پہلی نشانی تھی کہ "مسئلۂ فلسطین قطر میں زندہ ہے"۔
گارڈین نے گویا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کیا ہے کہ قطر کی سرزمین پر صہیونی نامہ نگار کو گھیرنے والے مصری تھے۔ اور ان نامہ نگاروں کو تمام مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ممالک کے باشندوں نے بھی دھتکارا ہے؛ جس سے اس برطانوی اخبار کو سمجھ لینا چاہئے کہ مسئلۂ فلسطین پوری دنیا میں زندہ ہے۔
گارڈین کے مطابق، مذکورہ کلپ نشر ہونے کے فورا بعد قطر کی سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے لبنانی باشندوں کو دکھایا گیا لیکن جب اسرائیلی نامہ نگار ان کے قریب پہنچا تو ان کا رد عمل یہ تھا کہ "اسرائیل کا کوئی وجود نہیں ہے، اسرائیل نہیں فلسطین، فلسطین ہے جو وجود رکھتا ہے"۔
فٹبال کے لاکھوں تماشائی پوری دنیا سے قطر پہنچے ہیں، جن میں اچھی خاصی تعداد ایشیائیوں کی ہے؛ جن کے لئے مسئلۂ فلسطین بہت اہم ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ وائرل ہونے والے کلپس کے مطابق صہیونی نامہ نگاروں کی موجودگی پر منفی رد عمل کا اظہار کرنے والے صرف ایرانیوں اور عربوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ برازیلی تماشائی بھی صہیونی نامہ نگار کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہیں۔
قطر نے عالمی کپ کے آغاز کے پہلے دنوں میں ہی مغربی ثقافت کے ساتھ اپنی سرحدیں واضح کر دیں؛ انھوں نے ہم جنس پرستوں کی موجودگی پر پابندی لگائی اور قطر کی سڑکوں پر شراب نوشی پر بھی قدغن لگ گئی۔ مغرب نے اس پالیسی کا خیرمقدم نہیں کیا لیکن کوئی خاص رد عمل بھی نہیں دکھایا۔ قطر کے جعلی ریاست کے ساتھ قطر کے باضابطہ تعلقات نہیں ہیں، لیکن فیفا کے اصرار اور دباؤ کے تحت اسے وقتی ریاست کے کچھ تماشائیوں اور نامہ نگاروں کے آنے کی اجازت دینا پڑی۔
البتہ یہ اجازت مشروط تھی۔ مثال کے طور پر انہیں صرف ایک فضائی کمپنی کے ذریعے قطر آنے کی اجازت دی گئی اور اس کمپنی کو درحقیقت فلسطینیوں کو آنے کی سہولت دینے کے لئے متعین کیا گیا تھا۔
ابتداء میں کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ یہ قطری حکومت کی طرف سے غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی ایک کوشش ہے۔ لیکن وقت گذر اوقات اور یہودی نامہ نگاروں کے ساتھ قطری روا رکھے گئے سلوک کی رو سے ثابت ہوا کہ اسلامی ممالک میں جعلی اسرائیلی ریاست کے لئے، آسانی سے، جگہ فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔
افتتاحی ٹورنمنٹ البیت اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ سب کو یہی توقع تھی کہ مغربی ایشیا میں منعقدہ عالمی کپ پہلے سے کہیں مختلف ہوگا۔ قطری تماشائیوں نے بڑے بڑے پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: "ہم سب کو خوش آمدید کہتے ہیں"۔ لیکن ان بینروں اور پلے کارڈوں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ فلسطینی پرچم سے مزین تھے۔
گارڈین کا نامہ نگار ان افراد میں سے ایک کے پاس پہنچا اور اس سے ایک سوال پوچھا تو اس قطری باشندے نے اس کا جواب دیا جو کچھ یوں تھا: "ہم فلسطینی عوام کے حامی اور ان کی صورت حال پر نظر رکھتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کے ہاتھ میں فلسطین کا پرچم ہے، کیونکہ ہم سب اس کے ساتھ ہیں"۔
ایک رپورٹ کے مطابق، ورلڈ مقابلوں کے آغاز سے اب تک یہودی نوآبادیوں کے 4000 رہائشی اور 8000 فلسطینی قطر کے سفر پر آئے ہیں اور مقابلوں کے اختتام تک مقبوضہ فلسطین سے 20000 افراد کے قطر آنے کی توقع ہے۔ لیکن چونکہ صہیونی-یہودیوں کو قطر میں عدم استقبال کا سامنا ہے لہذا ان کی تعداد کم بھی ہو سکتی ہے۔
ان مقابلوں کی اہمیت کے پیش نظر اب تک تقریبا 20 لاکھ غیر ملکی قطر میں جمع ہوئے ہیں۔ عالمی کپ 2022ع کے دوران - سابقہ ادوار کے برعکس - ایرانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی قطر کا سفر اختیار کیا ہے۔
ادھر صہیونی وزارت خارجہ کے ترجمان لیور حیات (Lior Haiat) نے ایک اخباری کانفرنس میں بات چیت کرتے ہوئے قطر جانے والے صہیونیوں سے کہا: "یہودی-اسرائیلی نشانیوں کے ساتھ منظر عام میں ظاہر ہونے سے پرہیز کرو اور اسرائیلی شناخت کو اپنی ذاتی مصلحت کے لئے صیغۂ راز میں رکھو"۔