سیدحسن نصر الله

یوم القدس اسرائیل کی تشویش کو دو گنا کر دیتا ہے، سیدحسن نصر الله

سید مقاومت نے کہا کہ ایک جانب امریکہ خود دوسرے جنگی محاذوں پر مصروف ہے اور نہ ہی عالمی طاقت رہا ہے، یہ امر صیہونیوں کی پالیسیوں پر گہرا اثر چھوڑ رہا ہے

اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز جمعے کے بعد لبنان کی مقاومتی تحریک حزب الله کے سربراہ سید حسن نصر الله نے بیروت میں یوم القدس کی مناسبت سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں شہید باقر الصدر اور ان کی بہن کی برسی کے موقع پر تعزیت پیش کی۔ سید حسن نصر الله نے صیہونی جارحیت اور گزشتہ برسوں میں عوام کی مقاومت کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوم القدس فلسطین اور اس کی عوام کے ساتھ غیور افراد کی یکجہتی کا دن ہے، یوم القدس فلسطینی قوم کی حمایت کا پیغام ہے، آپ لوگ تنہا نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اظہار یکجہتی دشمن کو خوفزدہ کر دیتا ہے اور ان کی پریشانی میں دو گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ ہم آج اطمینان کے ساتھ جشن منائیں گے، خود کو محفوظ، باوقار اور مضبوط تصور کرتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی رژیم گزشتہ روز سے تمام محاذوں پر ہائی الرٹ ہے۔ یہ رژیم اپنے اطراف کے ملکوں کو خالی دھمکیاں دیتی ہے۔ یوم القدس فلسطینی کاز کے حوالے سے ہر ایک کو اس کی ذمے داری کا احساس دلانے کا دن ہے۔ کسی کو بھی اس کاز سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ آج کے اجتماع میں متاثر کن عوامی شرکت ایک مھم اور مضبوط پیغام رکھتی ہے۔

 

حزب‌ الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دشمن نے تمام محاذوں پر چوکنا ہونے کا اعلان کیا۔ دشمن خوفزدہ اور وحشت ناک ہے لیکن مقاومتی بلاک پر سکون حالت میں ہے۔ گزشتہ سال فلسطینی عوام کے لئے عالمی اور علاقائی سطح پر بہت تبدیلیاں رو نماء ہوئیں۔ عالمی تبدیلیوں میں امریکہ کا کمزور ہونا ہے۔ یہ ملک گزشتہ سالوں اور دہائیوں کی طرح مضبوط نہیں رہا۔ جس کی پہلی مثال یہ ہے کہ وینزویلا کا اقتصادی اور سیاسی محاصرہ کرنے کے بعد واشنگٹن کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ دوسری مثال افغانستان میں اس کی شکست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے واقعے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ علاقائی سلامتی امریکی تعلقات سے مربوط نہیں بلکہ امن معاہدے اور مذاکرات خطے کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ خلیجی ممالک کے بعض حکام نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ نظام یا ملک کے تحفظ کے لیے امریکہ پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی ایشیاء اب امریکی ترجیح نہیں رہا۔ روس کے ساتھ جنگ اور چین کے ساتھ محاذ آرائی نے اسے دوسری ترجیحات میں مصروف کر دیا ہے۔ اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں سید حسن نصر الله نے کہا کہ امریکیوں نے صیہونیوں کو واضح کہہ دیا ہے کہ ہماری اولین ترجیح یوکرائن اور تائیوان ہے۔

 

سید مقاومت نے کہا کہ ایک جانب امریکہ خود دوسرے جنگی محاذوں پر مصروف ہے اور نہ ہی عالمی طاقت رہا ہے، یہ امر صیہونیوں کی پالیسیوں پر گہرا اثر چھوڑ رہا ہے۔ یہ بین الاقوامی تبدیلی استقامتی بلاک کے لئے فائدہ مند اور صیہونی رژیم کے لئے منفی نتائج کی حامل ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا منصوبہ امریکی دباو اور مطالبے پر وجود میں آیا تھا نہ کہ اس طرح جیسا کہ صیہونی بیان کرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں مختلف علاقوں میں مقاومت کو کمزور کرنے کا عمل مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ شام اور عرب ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کی واپسی و دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے لیے ترکی کی کوششیں اہم پیش رفت ہیں۔ دوسری جانب یمن بھی مثبت تبدیلیوں کا مرکز بنا ہوا۔ ہم شروع دن سے ہی یمنیوں کے ساتھ ہیں۔ ہم یمن اور سعودی عرب میں مثبت ماحول کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ امر ہماری خوشحالی کا باعث ہے۔ انصار الله کے بہادر اور زیرک رہنماء "سید عبدالملک بدرالدین الحوثی" نے شروع دن سے ہی اپنی قوم کے دفاع کی بات کی۔ لوگوں کو وہ جواب دہ ہے جس نے بڑے بڑے منصوبے بیان کئے لیکن ان میں سے کوئی بھی ہدف خطے اور یمن میں نہ حاصل کر سکا۔

 

حزب‌ الله کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں عراقی عوام، الحشد الشعبی اور ان کے مقاومتی مرکز پر بھرپور اعتماد ہے۔ ہم الجزائر کے مسئلہ فلسطین میں کلیدی کردار اور افریقی سربراہی کانفرنس سے اسرائیلی وفد کو باہر نکالنے کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے مغربی کنارے کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارہ اپنے صبر، استقامت اور مقاومت کی وجہ سے قدس کی ڈھال ہے۔ مغربی کنارے کی صرف سیاسی و معنوی حمایت کافی نہیں بلکہ ہمیں ان کی مالی مدد بھی کرنی چاہئے۔ ہم سب کو اس حوالے سے کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کوئی مغربی کنارے تک اسلحہ بھیج سکتا ہو، اسے بھیجنا چاہئے۔ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم مغربی کنارے کی اس طرح مدد کریں کہ انہیں مستحکم کر کے آزادی کی بنیاد رکھ دیں۔ سید مقاومت نے اپنی گفتگو کے اختتام پر صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قدس، مغربی کنارے، غزہ، لبنان یا شام میں تمہارے احمقانہ اقدامات خطے کو ایک بڑی جنگ میں جھونک سکتے ہیں۔ نتین یاہو کا کہنا ہے کہ ہم دیکھیں گے۔ میں اُسے مقاومت لبنان کی جانب سے کہتا ہوں کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ 

 

سید حسن نصر الله نے کہا کہ دشمن نے جنگ کو مختلف محاذوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ دشمن غزہ کی پٹی و مغربی کنارے میں جارحیت انجام دے رہا ہے اور پھر اسے جنگی اصول سے تعبیر کرتا ہے۔ ہم دشمن سے یہ کہتے ہیں کہ کھیل خطرناک ہے۔ احتیاط کرے کیونکہ قدس ہماری ریڈ لائن ہے۔ دشمن، ایران پر حملہ کرنے سے بہت ڈرتا ہے۔ ہمارا تعلق لبنان سے ہے کہ جس نے 2000ء میں تم سے جنگ جیتی تھی۔ ہم امام خمینی اور امام خامنہ ای سمیت تمام مسلم و عیسائی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور فلسطین کاز سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ای میل کریں