بس، بہت ہوچکی یہ یاوہ سرائی ، بس کر
خود ستائی و خود انگشت نمائی ، بس کر
لب اظہار نہیں کھولتے اہل اخلاص
تو بھی اب چھوڑ یہ ملبوس ریائی ، بس کر
یاد رکھ، تیری خطا کاریں حق جانتا ہے
حیلہ گر! چھوڑ دے یہ زہد نمائی ، بس کر
حق غنی ہے تو در حق پہ لگا دے بستر
ہوچکی در پہ گداؤں کے گدائی ، بس کر
بے خدا کتنی شب و روز عبادت کی ہے؟
مان لی کتنی خداؤں کی خدائی ، بس کر
کرچکا شرک تری روح میں اپنا مسکن
بس کر اب دعوی توحید نمائی ، بس کر
دل شیطان زدہ اور عشق خدا، کیا مطلب؟
ہم سمجھتے ہیں تری راہنمائی ، بس کر
معصیت ایسی عبادت سے کہیں بہتر ہے
میری جان! چھوڑ دے اب شرک فزائی ، بس کر
خیل ابلیس سے نسبت نہیں اہل اللہ کو
اے قلم! خوب ہے یہ راز کشائی ، بس کر