مولا عباس ع جوانوں کے لئے نمونہ عمل
جب سے عباس نے دنیا میں آنکھیں کھولیں امیر المؤمنین(ع) اور امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے اطراف دیکھا اور ان کی مہر و محبت کے سائے میں پروان چڑھے اور امامت کے چشمہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے رہے۔
چودہ سال زندگی کے جناب امیر کے ساتھ گزارے ۔ جب علی (ع) جنگوں میں مصروف تھے تو کہتے ہیں کہ عباس بھی ان کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے حالانکہ بارہ سال کے نوجوان تھے۔ نوجوانی کے زمانے سے ہی حضرت امیر (ع) نے انہیں شجاعت اور بہادری کے گر سکھا رکھے تھے۔ جنگوں میں حضرت علی (ع) انہیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے تھے انہیں کربلا کے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا۔
تاریخ نے اس نوجوان کے بعض کرشمے جنگ صفین میں ثبت کیے ہیں کہ جب آپ بارہ سال کے تھے۔
مگر آپ کے بھتیجےجناب قاسم تیرہ سال کے نہیں تھے کہ جنہوں نے اپنے چچا کی رکاب میں شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے کہ دشمن دھنگ رہ گئے؟ مگر آپ کے والد علی (ع) نوجوان نہیں تھے جب جنگ بدر و احد،اور خیبر و خندق میں مرحب و عمر بن عبد ودّ جیسے نامی گرامی پہلوانوں کے ساتھ مقابلہ کر کے انہیں واصل جہنم کر کے پرچم اسلام کو سربلندی عطا کرتے رہے ہیں؟ کیا جناب عباس کے نانہال والے قبیلہ بنی کلاب میں سے نہیں تھے جو شجاعت، بہادری اور شمشیر زنی میں معروف تھے؟۔ عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں ٹکراؤں کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔
صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المؤمنین (ع) کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جا کر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟ معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تا کہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔
معاویہ کی فوج میں زلزلہ آ گیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نوجوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المؤمنین (ع) نے اسے واپس بلا لیا نقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ ہاں یہ نوجوان کون تھا یہ قمر بنی ہاشم ، یہ بارہ سال کا عباس یہ شیر خدا کا شیر تھا۔
نیز تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ صفین میں معاویہ کی فوج نے پانی پر قبضہ کر رکھا تھا جب امیر المؤمنین (ع) کی فوج کو پیاس لاحق ہوئی تو آپ نے امام حسین (ع) کی قیادت میں کچھ افراد کو پانی کے لیے بھیجا اور حضرت عباس امام حسین کے دائیں طرف تھے۔ جنہوں نے پانی کو باقی لشکر والوں کے لیے فراہم کیا۔
یہ ایام گزر گئے سن چالیس ہجری آ گئی مسجد کوفہ کا محراب رنگین ہو گیا۔ جب حضرت علی(ع) شہید ہوئے حضرت عباس چودہ سال کے تھے۔ بابا کی شہادت کا عظیم صدمہ برداشت کیا رات کے سناٹے میں جنازے کا دفن کرنا برداشت کیا۔ اب ہر مقام عباس کے لیے امتحان کی منزل ہے عباس ہر منزل پر اپنا لہو پی کر کے برداشت کر رہے ہیں۔ باپ کے بعد حسنین (ع) عباس کی پناگاہ ہیں۔ ان کے اشاروں پر عمل کر رہے ہیں اور ہرگز اپنے باپ کی وصیت جو 21 رمضان کو عاشورا کے سلسلے میں کی کہ حسین کو اکیلا نہ چھوڑنا فراموش نہیں کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے سخترین ایام در پیش ہیں کمر ہمت کو مضبوطی سے باندھے رکھیں۔
وہ دس سال بھی سختیوں کے گزار دیے جب امام حسن علیہ السلام مقام امامت پر فائز تھے اور معاویہ کی طرف سے مسلسل فریب کاریاں امام کو اذیت کر رہی تھیں۔ بنی امیہ کا ظلم و ستم عروج پکڑ رہا تھا حجر بن عدی کو شہد کر دیا عمرو بن حمق خزاعی کو شہید کر دیا علویان کو قیدی بنایا جانے لگا۔ منبروں سے وعظ و نصیحت کے بدلے مولا علی کو سب وشتم کیا جانے لگا۔ عباس ان تمام واقعات کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اپنا خون پی پی کرانہیں تحمل کر رہےتھے۔ آخر وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب امام حسن(ع) کو زہر دے دیا گیا اور ان کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باہر آ گیا۔ جنازے کو تیر لگ گئے عباس تلوار کو نیام سے نہ نکال سکے۔
عباس کرتے بھی کیا جب بھی ہاتھ قبضہ شمشیر پر رکھا ہے حسین(ع) نے یہ کہہ کے روک دیا ہے کہ عباس ابھی جنگ کا وقت نہیں ہے۔ عباس صبر کرو۔ آخر کار جناب عباس ان تلخ ایام کو بھی امام حسین (ع) کی رہنمائی کے سائے میں گزار دیتے ہیں اور مسلسل تاریخ کے نشیب و فراز کا اپنی گہری نگاہوں سے مطالعہ کرتے ہیں۔