عصمت

امام کی خصوصیات: "عصمت"

امام کی اہم صفت اور امامت کی بنیادی شرائط میں سے ایک "عصمت" ہے

"عصمت" ایک ایسی طاقت اور صفت ہے جو حقائق کے علم اور مضبوط ارادے سے پیدا ہوتی ہے اور امام انہی دو امور کے ذریعہ ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پرہیز کرتا ہے۔

امام، دینی معارف کی شناخت اور ان کی تبیین میں اور اسی طرح ان پر عمل کرنے میں اور اسلامی معاشرے کے مفادات و مفاسد کی تشخیص میں ہر قسم کی لغزش اور خطا سے معصوم ہوتا ہے۔

امام کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل (قرآن و روایات سے) موجود ہیں۔ سب سے اہم عقلی دلائل درج ذیل ہیں:

الف۔ دین اور دینداری کے طریقے کی حفاظت امام کی عصمت پر منحصر ہے کیونکہ امام پر دین کو تحریف سے بچانے اور لوگوں کی ہدایت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نہ صرف اس کا کلام بلکہ اس کا عمل اور دوسروں کے اعمال پر اس کی تائید یا عدم تائید بھی معاشرے کے رویے پر اثر انداز ہوتی ہے لہٰذا دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں وہ ہر لغزش سے محفوظ ہونا چاہیے تاکہ اپنے پیروکاروں کو صحیح طریقے سے ہدایت دے سکے۔

ب۔ معاشرے کو امام کی ضرورت کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ دین کو پہچاننے اور اس پر عمل کرنے میں خطا سے محفوظ نہیں ہوتے۔ اب اگر امام بھی ایسا ہی ہو تو لوگ کس طرح اس پر مکمل اعتماد کر سکتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں اگر امام معصوم نہ ہو تو لوگ اس کی پیروی اور اس کے تمام احکام پر عمل کرنے میں شک و شبہ کا شکار ہوں گے۔

اس کے علاوہ، اگر امام خطا سے محفوظ نہ ہو تو کسی اور امام کی تلاش ضروری ہو گی تاکہ وہ لوگوں کی ضرورت کو پورا کرے اور اگر وہ بھی خطا سے محفوظ نہ ہو تو ایک اور امام کی ضرورت ہوگی اور یہ سلسلہ لا متناہی طور پر جاری رہے گا، جو عقل کے نزدیک باطل ہے۔

قرآن کی بعض آیات بھی امام کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک سورۂ بقرہ کی آیت ۱۲۴ ہے۔ اس میں آیا ہے کہ مقام نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کا اعلیٰ مقام عطا فرمایا، تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ ان کی نسل میں بھی یہ مقام قرار دیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "لَا یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ" یعنی میرا عہد (امامت) ظالموں کو ہرگز نہیں پہنچے گا۔ پس امامت کا منصب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس ذریت سے مخصوص ہے جو ظالم نہ ہوں گے۔

اب قرآن کریم نے شرک کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے اور ہر طرح کی نافرمانی کو نفس پر ظلم شمار کیا ہے، تو پس جو کوئی اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی گناہ کا مرتکب ہوا ہو، وہ ظالم کے زمرے میں آتا ہے اور مقام امامت کا اہل نہیں ہو سکتا۔

دوسرے لفظوں میں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلا شک و شبہ "امامت" ان افراد کے لیے طلب کی تھی جو تمام عمر گناہ گار رہے ہوں یا ابتدا میں تو نیک ہوں اور بعد میں گناہ گار بن گئے ہوں نہیں کی تھی۔ لہٰذا دو ہی گروہ باقی بچتے ہیں:

۱. وہ جو ابتدا میں گناہ گار تھے پھر توبہ کر کے نیک بن گئے۔

۲. وہ جو کبھی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں پہلے گروہ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ نتیجتاً "امامت" کا منصب صرف دوسرے گروہ کے لیے مخصوص ہے۔

(یہ بحث جاری ہے...)

کتاب نگین آفرینش سے ماخوذ (بعض جزئی تبدیلیوں کے ساتھ)۔

ای میل کریں