14/خرداد، ایک ایسا دن ہے جو ایران کی معاصر تاریخ کو تلخی سے یاد دلاتا ہے؛ ایک ایسا دن جب نہ صرف ملتِ ایران، بلکہ دنیا کے تمام حریت پسند اور کمزور سمجھے جانے والے (مستضعفین) اس مرد کے سوگ میں بیٹھے جس نے اپنی عمر اور زندگی خالص محمدی اسلام کے احیاء، قوموں کے حقوق کے دفاع، اور ظلم و استکبار کے خلاف جدوجہد کے لیے وقف کر دی؛ وہ دن جب روح اللہ اپنے پروردگار کی طرف پرواز کر گئے اور ان کا خاکی جسم، لاکھوں دل شکستہ افراد کے آنسوؤں اور آہوں کے درمیان، سپردِ خاک کر دیا گیا۔ یہ دن حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی برسی ہے؛ اسلامی انقلاب کے عظیم بانی، باخبر مرجع تقلید، سیاستدان فقیہ، اور ملتِ ایران کے غیر متنازعہ رہبر۔
امام خمینی (رح)، نہ صرف ایک فقیہ اور دینی مرجع تھے، بلکہ ایک الٰہی، انقلابی، مفکر، اور جامع الصفات انسان تھے جنہوں نے خدا پر ایمان، عوام پر اعتماد، اور بے مثال جرأت کی بنیاد پر بیسویں صدی کے سب سے بڑے عوامی انقلاب کی قیادت کی اور دین و عقلیت کی بنیاد پر ایک الٰہی نظام قائم کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب بہت سے لوگ دین کو سیاست سے جدا سمجھتے تھے اور روحانیت کو صرف دینی مدارس تک محدود کرتے تھے، انہوں نے پوری قاطعیت کے ساتھ اعلان کیا کہ "اسلام، سیاست کا دین، حکومت کا دین، اور جدوجہد کا دین ہے۔"
کمزوروں (مستضعفین) کے قیام کے رہبر
امام خمینی (رح) کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک دنیا کے کمزوروں (مستضعفین) اور مظلوموں کا دفاع تھا۔ انہوں نے نہ صرف ملتِ ایران کو اندرونی استبداد اور بیرونی سامراج کے جوئے سے نجات دلائی، بلکہ مسلمان اور حتیٰ کہ غیر مسلم اقوام کے لیے بیداری کا پیغامبر بنے۔ امام کی نظر میں، دنیا دو گروہوں میں تقسیم تھی؛ ظالم اور مظلوم؛ اور وہ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہے۔ فلسطینی عوام، افریقہ، لاطینی امریکہ کی آزاد قوموں اور حق کی راہ کے تمام مجاہدین کی ان کی بے دریغ حمایتیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں۔
امام خمینی (رح)، عالمی استکبار (سامراجیت) کو قوموں کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انہوں نے بارہا امریکہ کو "شیطانِ بزرگ" قرار دیا اور عالمی طاقتوں سے کسی خوف کے بغیر، ایران اور اس کی سرحدوں سے باہر آزادی اور خود مختاری کا پرچم بلند کیا۔ استکبار کے خلاف جدوجہد کی یہ روش، آج بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے نعروں اور پالیسیوں میں واضح طور پر نظر آتی ہے اور یہ امام کی نسلوں کے لیے گرانقدر میراث ہے۔
ایک باخبر اور زمانہ شناس فقیہ
امام کی ایک اور نمایاں خصوصیت ان کی اپنے زمانے اور اس کے تقاضوں کی گہری پہچان تھی۔ وہ کبھی بھی روایتی فقہ کے تنگ اور محدود دائرے میں محصور نہیں ہوئے، بلکہ دینی اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے، دین کے بارے میں ایک نیا اور عملی نقطہ نظر پیش کیا۔ نظریہ ولایتِ فقیہ، جس نے عصرِ غیبت میں اسلامی حکومت کی بنیاد کی تعریف کی، ان کی فقہی اور سیاسی بصیرت کی گہرائی سے نکلا اور آج اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مشروعیت کی بنیاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔
امام خمینی (رح) نے دین کو گوشہ نشینی سے نکالا اور ثابت کیا کہ اسلام کے پاس معاشرے کو چلانے کے لیے ایک جامع پروگرام ہے؛ معیشت سے لے کر ثقافت تک، سیاست سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک۔ اس نئے نقطہ نظر نے دانشوروں، حوزوی علما، یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلباء اور سماجی کارکنوں کی ایک نئی نسل کو دین کی طرف راغب کیا اور انہوں نے بے عملی کے بجائے معاشرے کی اصلاح اور ترقی کی راہ پر قدم بڑھائے۔
قومی اتحاد کے معمار
امام خمینی، ملک میں قومی، لسانی، مذہبی اور ثقافتی تنوع کے باوجود، قومی اتحاد کو عروج پر پہنچانے میں کامیاب رہے۔ امام کا نعرہ "سب ایک ساتھ" صرف ایک نعرہ نہیں تھا، بلکہ ایرانی عوام کی یکجہتی پر ایک گہری نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اتحاد کے بغیر کوئی تحریک فتح یاب نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا انہوںانے تمام طبقات، مذاہب اور مکاتب فکر کو دعوت دی کہ وہ اسلام کے پرچم تلے اور الٰہی مقاصد کی راہ پر جمع ہوں۔
آج بھی، ان کی برسی کے موقع پر، ہمیں اس اتحاد اور ہم آہنگی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اسلام اور ایران کے دشمن، ہمیشہ تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں، اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ امام کی تعلیمات کی طرف واپسی اور قومی اتحاد و یکجہتی کا تحفظ ہے۔
امام کی سادہ زیستی اور اخلاص
امام خمینی کی ذاتی خصوصیات، خود عہدیداروں اور عوام کے لیے ایک نمونہ ہیں۔ سادہ طرزِ زندگی، عمل میں اخلاص، شان و شوکت سے دوری، مقام و دولت سے بے نیازی، یہ تمام وہ خصوصیات تھیں جو نہ صرف ان کے اقوال میں، بلکہ ان کے عمل اور عملی سیرت میں بھی نظر آتی تھیں۔ جماران میں امام کا سادہ گھر، معمولی لباس، بے تکلف زندگی، اور عوام کے ساتھ قریبی تعلق، ایک ایسے مرد کی زندگی کا واضح ثبوت تھا جو حقیقتاً دنیا سے کٹ کر خدا سے جڑ چکا تھا۔
امام کا اخلاص، ان کے کلام میں اثر اور بے مثال تاثیر کا سبب بنا۔ ان کی بات دلوں کو دہلا دیتی تھی، نہ کہ قوتِ بیان کی وجہ سے، بلکہ نیت کی سچائی کی وجہ سے۔ یہی اخلاص، ایرانی عوام اور دیگر اقوام کے دلوں میں ان کی بقا کا راز بنا۔
امام کے راستے کو زندہ رکھنا، ہم سب کی ذمہ داری ہے
اب جبکہ اس غمگین دن کو کئی سال گزر چکے ہیں، ہماری ذمہ داری صرف ظاہری سوگ اور یاد منانا نہیں ہے؛ بلکہ ہمیں امام کے راستے، فکر، اور نظریات کو زندہ رکھنا چاہیے۔ آج، ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ انقلابی جذبے، مضبوط ایمان، دشمن کے سامنے جرأت، اور خدمت میں اخلاص کی ضرورت ہے۔ اگر آج کی نسل امام کی فکر سے آشنا ہو جائے، تو وہ سمجھ جائے گی کہ ترقی کا راستہ اسلامی انقلاب کے حقیقی اصولوں کی طرف واپسی میں ہے۔
امام کی یاد، ان کے افکار و نظریات کی درست پہچان سے شروع ہوتی ہے اور اس پر عمل کرنے سے تسلسل پاتی ہے۔ ہمیں امام سے سیکھنا چاہیے کہ ظلم کے سامنے کیسے کھڑا ہوا جائے، مظلوم کا دفاع کیسے کیا جائے، معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے کیسے کوشش کی جائے، اور سچائی اور تقویٰ کے ساتھ خدا کی راہ پر کیسے چلا جائے۔
آخر میں، ہم امام خمینی (رح) کی یاد اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ایک بار پھر ان کے بلند نظریات کے ساتھ تجدیدِ عہد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اس نیک بندے کے سچے پیروکاروں میں شامل فرمائے اور ان کے راستے پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔