کہ امام خمینیؒ کی سیرت اور فکر میں آخرت زمان کا مفہوم واضح اور روشن ہے، جس کا محور صرف عدل کا قیام
تہران میں منعقدہ انصار المہدی (عج) کی ہفتہ وار نشست میں خطاب کرتے ہوئے حوزۂ علمیہ قم کے استاد حجت الاسلام والمسلمین ہادی سروش نے کہا کہ امام خمینیؒ کی سیرت اور فکر میں آخرت زمان کا مفہوم واضح اور روشن ہے، جس کا محور صرف عدل کا قیام اور امن کا بسط ہے۔ ان کے مطابق آج بعض خطباء اور نام نہاد مذہبی شخصیات اس موضوع کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں جو نہ صرف دین کے ساتھ نا انصافی ہے بلکہ معاشرے کو بھی گمراہ کن راستے پر ڈال دیتی ہے۔
ہادی سروش نے وضاحت کی کہ آخرت زمان کا مطلب لغوی اعتبار سے ایک دور کا اختتام ہے، لیکن اسلامی معارف میں اس سے مراد وہ عظیم دور ہے جب امام زمانہ (عج) دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ انہوں نے قرآن کی سورۂ نور (آیت 55) کا حوالہ دیا جس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین کو زمین میں خلافت عطا کرے گا، ان کے دین کو استوار کرے گا اور خوف و ناامنی کو امن و اطمینان سے بدل دے گا۔
انہوں نے کہا حقیقی آخرت زمانی فکر انسان کو صبر، شکیبائی اور اہل بیتؑ کی تعلیمات پر استقامت کی طرف بلاتی ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے ہی لوگوں کو خوشخبری دی ہے جو زمانۂ غیبت میں صبر کرتے اور اہل بیتؑ کی راہ پر قائم رہتے ہیں۔
اس فکر کی اصل روح معاشرے کو امن، انصاف اور توحیدی زندگی کی طرف لے جانا ہے۔ہادی سروش نے خبردار کیا کہ بعض حلقوں میں آخرت زمانی فکر کی جعلی اور بدلی ہوئی تشریحات پھیلائی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق کچھ لوگ ظہور کے وقت کا تعین کرتے ہیں جبکہ روایات میں اس عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ امام صادقؑ نے فرمایا کذب الوقاتون، هلک المستعجلون یعنی وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں اور جلدباز ہلاک ہوں گے۔
بعض لوگ مصلحت کے نام پر فساد اور ظلم کو جواز فراہم کرتے ہیں۔کبھی خوابوں یا قصوں کو بنیاد بنا کر افراد کو غیر معمولی تقدس دے دیا جاتا ہے۔
بعض رجحانات عوامی معاشی مشکلات کو بھی ظہور کے قریب ہونےکا بہانہ بنا کر جواز فراہم کرتے ہیں اور عوام پر سختیاں مسلط کرتے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بعض مقررین یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دنیا کو قابو میں لینے کے لیے نصف انسانیت کی قربانی دینا پڑے تو کوئی حرج نہیں جبکہ ایسی سوچ نہ صرف دین اور اخلاق کے خلاف ہے بلکہ اہل بیتؑ کی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے۔
ہادی سروش نے امام خمینیؒ کے طرزِ عمل کو اس حوالے سے نمونہ قرار دیا۔ ان کے بقول امام خمینیؒ اپنی کرشماتی شخصیت اور عوامی اثرو رسوخ کے باوجود کبھی آخرت زمان کے نام پر عوام کو جذباتی طور پر قابو کرنے یا اپنے بیانیے کو مذہبی تقدس دینے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا امام خمینیؒ کی نظر میں عدل صرف سماجی و سیاسی دائرے تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ انسانی روح اور اخلاقی تربیت تک پھیلا ہوا ہے۔
امام خمینیؒ نے نہ کبھی ذاتی و گروہی مفادات کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا اور نہ ہی آخرت زمانی فکر کو سیاست کی خدمت میں استعمال کیا۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو آج کے بعض مقررین اور سیاسی شخصیات کی روش سے جوہری فرق رکھتا ہے۔
ہادی سروش نے کہا کہ اس دور میں دینی علما پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو انحرافی افکار سے محفوظ رکھیں۔ انہوں نے شہید مطہریؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امام حسن عسکریؑ نے بعض نام نہاد علما کے بارے میں فرمایا یہ علما ہمارے کمزور شیعوں پر لشکر یزید سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔
ہادی سروش کے مطابق وہ علما جو آخرت زمانی فکر کو توہمات، سیاسی اغراض یا ذاتی منافع کے لیے بگاڑ کر پیش کرتے ہیں، ان کا نقصان اسلام کے لیے کسی بھی بیرونی دشمن سے زیادہ ہے۔
ہادی سروش نے آخر میں زور دیا کہ ہمیں امام خمینیؒ کے طرزِ فکر سے یہ سبق لینا ہوگا کہ دین کو ذاتی، سیاسی یا گروہی مفادات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ حقیقی آخرت زمانی فکر صرف عدل، عقلانیت، تقویٰ اور امن کے قیام پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا راویانِ آخرت زمان اگر عقلانیت و تقویٰ کو اپنا ہتھیار بنائیں تو وہ معاشرے کو انتشار اور پریشانی سے نکال کر حقیقی نجات اور امن کی طرف لے جا سکتے ہیں۔