اللّهمّ انّا نرغب الیک فی دولةکریمة تعز بها الاسلام واهلہ وتذلّ بها النفاق واہلہ
دنیا میں کوئی بهی مکتب فکر ہو اسکے اپنے نظریات ہوتے ہیں، اپنے مقاصد اور اپنا طرز تفکر ہوتا ہے چاہے وہ مادی مکاتب فکر ہوں یا الٰہی طرز تفکر رکهنے والے مکاتب۔ مکاتب الٰہی کے درمیان وہ شریعتیں کہ جو ایک عالمی اعتبار کی حامل ہیں بالخصوص شریعت اسلام، بشریت اور تاریخ کے لئے ایک خوش آئند مستقبل کی نوید دے رہی ہیں۔
مختلف مکاتب کے درمیان آئندہ کے سلسلہ میں پیشین گوئی اپنے اندر کچه مشترکات رکهتی ہے۔ ان تمام مکاتب کے درمیان سب سے پہلا نقطہٴ اشتراک یہ ہے کہ مستقبل،حال اور ماضی سے بہتر ہوگا۔
ایک ایسا مشترک عنصر کہ جس پر سب کے سب مکاتبِ فکر متفق ہیں وہ تاریخ کا اختتام اور زمانے کا خاتمہ ہے یعنی آخری زمانہ۔
گزشتہ دو تین دہائیوں میں مجموعی طور پر مغرب میں انسانوں کے مستقبل کے متعلق چار طرح کے نظریئے پائے جاتے ہیں جن میں تقریبا سب کا مقصد ایک طرح سے یہ باور کرانا ہے کہ آنے والے کل کو مغرب ہی رقم کرنے والا ہے! آج جب کہ دنیا مکتب مہدویت سے آگاہ ہو رہی ہے اور لوگوں میں رجحان بڑه رہا ہے، اہل مغرب نے اس کو روکنے کے لئے ایک نئی تحریک شروع کی ہے اور یہ باور کرانا چاہا ہے کہ مسلمان جس مہدویت کا دم بهرتے ہیں وہ کچه بهی نہیں ہے، اس کا کوئی روشن مستقبل نہیں ہے!
آج عالم اسلام کی بیداری ایک حیثیت کی حامل ہے۔
انقلاب اسلامی سے پہلے قم ایک چهوٹا سا شہر تها، اس وقت شہر میں طلاب، علماء، مجتہدین اور دیگر تعلیم یافتہ افرادکی تعداد بهی کم تهی اور کچه دیندار لوگ تهے جو بیدار تهے، بقیہ دیگر تمام لوگ ایک دوسری ہی فضا میں سانس لے رہے تهے لیکن تحریک انقلاب کی برکت سے پورا قم بیدار ہو گیا۔ پهر ایران بیدار ہوا اور اب تو آہستہ آہستہ پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہر دوڑ چکی ہے۔ ہم اس وقت عالم بشریت کی بیداری کے منتظر ہیں۔
ان باتوں کے تناظر میں ہمیں امام خمینی(رح) کی یہ پیشین گوئی یاد آتی ہے کہ جب آپ نجف میں تهے تو آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا کہ ہم نے انقلاب اس لئے برپا کیا ہے کہ ہمارے لوگ بیدار ہو جائیں،جب بیدار ہو جائیں گے تو عالم اسلام بیدار ہو جائے گا اور جب عالم اسلام بیدار ہوجائے گا تو پوری بنی نوع بشر بیدار ہو جائے گی اور جب پوری دنیا بیدار ہو جائے گی تو امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
بس اجمالاً یہ عرض کرنا ہے کہ آنے والا کل ایک درخشاں مستقبل کی نوید دے رہا ہے کیوںکہ اس سلسلہ میں ہمارے پاس جو روایات ہیں وہ ضعیف نہیں ہیں اور وہ یہی کہہ رہی ہیں کہ آنے والا کل مسلمانوں کا ہے، اس کے علاوہ ظاہری حالات بهی یہی بیان کر رہے ہیں۔
لہذا میں یہی کہوں گا کہ مسلمانوں کی حالت پر جب بهی ہم نظر ڈالیں تو خزاں کے ساته ساته بہار بهی دیکهیں، انکی خامیوں کے ساته ساته انکی وہ خوبیاں بهی دیکهیں جو پہلے نہیں تهیں لیکن اب فروان ہیں۔
امید ہے کہ انشاء اللہ میری یہ مختصر سی گفتگو امام زمانہ کی رضایت کاسبب بنے گی۔
بشکریہ اہل بیت(ع) پورٹل