حضرت امام خمینی (ره) نے اسلامی انقلاب اور نظام کے مادی اور معنوی مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’دین اسلام اپنے ظہور کے وقت سے ہی وقت کے حکمفرما نظاموں کا مخالف رہا ہے۔ اس کا اپنا ایک خاص معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی سسٹم اور نظام ہے جس میں انفرادی اور معاشرتی کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق خاص قوانین موجود ہیں اور اسلام کے نزدیک ان قوانین کے علاوہ کوئی قانون بھی معاشرے کو سعادتمند نہیں بنا سکتا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۶۷ )
آپ نے جدید معاشرہ تشکیل دینے کیلئے قدرت اور اقتدار الٰہیہ کا دفاع کیا۔ آپ دنیا میں رائج سیاسی ثقافت کی بنیاد پر مناصب اور افتخارات کے حصول کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے تھے۔ امام امت (ره) ثروتمندوں کے ہاتھوں میں حکمرانی کے آنے کو کہ جس کے نتیجے میں تکبر اور جاہ طلبی کا وجود میں آنا لازمی امر ہے، مسترد فرماتے تھے۔ آپ انقلاب کے ثمرات کے تحفظ اور دشمنوں کے خلاف تمام مسلمان معاشروں میں اتحاد کی برقراری کیلئے ہمیشہ شرف ودلیری کے برگزیدگان کو اہمیت دیتے تھے۔ حضرت امام امت (ره) کے نزدیک دین اسلام کی ماہیت حکومتی ہے اور وہ انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہے۔
آپ نے انقلاب اور اسلامی نظام کی تشکیل کی تشریح سامراجیوں کے خلاف کمزوروں کے جہاد کی بنیاد پرکی۔ دفاع کے موقع پر محاذوں پر غریب عوام کا بڑے پیمانے پر حاضر ہونا، شہداء اور فداکاروں کی زندگی کی حالت، قلتوں ، مشکلات اور دباؤ کے مقابلے میں ان کے خاندان والوں کا کریمانہ صبر وثبات قدم سب حضرت امام خمینی (ره) کی توقعات کے مؤید تھے۔
امام خمینی (ره) نے دل وجان خداوند متعال کے بارے غور وفکر کے جذبے کو سونپ دئے۔ ذات حق تعالیٰ کے اسماء وصفات عالیہ کی جانب توجہ نے آپ کو ہر نقص سے منزہ کردیا اور روز افزون کمال وترقیات الٰہیہ آپ کو نصیب ہوئیں ، اسی لئے دیکھا گیا کہ آپ کا حال، عمل، طرز فکر اور بیان دوسروں سے مختلف تھا۔ آپ اپنی حکومت میں کسی چیز کو نہیں دیکھتے تھے مگر یہ کہ اس سے پہلے اور اس کے ساتھ خدا کا مشاہدہ کرتے تھے۔
امام امت (ره) نے انسانوں کے اندر مخفی اور لایزال قوت، جس کو ظالم ہرگز حساب میں نہیں لاتے تھے، کا احیا کیا اور اس کے سبب سے مستضعفین کے دلوں میں امید کی کرن روشن کی۔ ان توفیقات کا راز گوناگوں امواج اور میلانات، کئی پہلوؤں والی اور گمراہ کن تعلیما ت کے خلاف آپ کا ثبات قدم تھا۔ آپ اپنے الٰہی سیاسی وصیت نامے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اسلام اور اسلامی حکومت ایک خدائی نعمت ہے۔۔۔ اسلام غیر توحیدی مکاتب کے برعکس ایسا مکتب ہے جو تمام انفرادی، اجتماعی، مادی، معنوی، ثقافتی، سیاسی، فوجی اور اقتصادی امور اور پہلوؤں کی نگرانی کرتا اور ان میں اپنا رول ادا کرتا ہے۔ اس نے انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی ومعنوی ترقی کا موجب بننے والے کسی معمولی سے نکتے تک کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس نے فرد اور معاشرے کے تکامل کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور موانع کو بیان کرتے ہوئے ان کی برطرفی کی کوشش کی ہے‘‘۔(وصیت نامہ، ص ۷ و ۸)