جوان نیوز کی رپورٹ کے مطابق: امام خمینی رہ نے 14 آبان 1359 کی صبح کو ملک کے خطباء سے جماران کے امام بارگاہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
عراقی فوج نے 31 شہریور 1359 کو جو حملہ شروع کیا تو کچھ عوامل کی وجہ سے وہ ہمارے ملک کے کچھ حصہ پر قبضہ کر نے میں کامیاب ہوئی اس وقت ایران کے پاس اس بعثی فوج کا مقابلہ کرنے کی تیاری نہیں تھی اور ان کے خلاف کوئی بھی کاروائی ناکام ہوجاتی تھی پھر خرمشہر پر قبضہ اور شہر آبادان کا حصار کرنا ان نمونوں میں سے ہیں لیکن امام کی راہنمائی جس کی تکیہ گاہ خدا اور اس کے بندوں پر تھی اس راہنمائی نے آہستہ آہستہ ایرانی عوام کے اندر کامیابی کی کرن کو اجاگر کیا اور دشمنوں کے درمیان ہار کا خوف پیدا کیا جس کا نمونہ آبادان کی آزادی ہے کامیابی کی امیدی کے ساتھ ساتھ تمام فوجیوں کو لڑنے کی جرات اور ہمت بھی بخشی اور امام (رہ) کی یہ طاقتور راہنمائی آبادان کا گھراو اور اسلامی فوجی کی کامیابی کا آغاز کا سبب بنی انھوں نے اسی تقریر میں بیان کیا کہ:میں منتظر ہوں کے آبادان کا حصار تھوڑا جاے اور میں اسلامی فوج کو انتباہ کرتا ہوں کے جتنا جلدی ہو یہ حصار ٹوٹنا چاہیے اس میں کسی بھی قسم کی رحم دلی نہ کی جاے بلکہ یہ حصار ختم ہونا چاہیے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ آییں گے تو نکال دیں لیکن اگر یہ آگے تو ہمیں نقصان پہنچائیں گے لہذا ان کو وہیں روکا جائے خرمشہر سے انھیں نکالاجاے اور حملہ آور ہو کر مقابلہ کریں۔
امام رہ نے اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں اسلام کے سیاسی مسائل کے بارے میں کہا اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے فلسفہ پر روشنی ڈالی:اور کہا اس وقت ہمیں رونے والی قوم کہا جاتا یہ اس لئے کہا جاتا ہے تاں کہ عزاداری کو ہم سے چھین لیں اور تمام مجالس کو بند کردیا اس کے کہنے پر جو خود مجالس میں جاتا تھا اور ادائیں دیکھاتا تھا مجلس کا مقصد عزاداری ہے تو کیا وہ مجلس سے کچھ اور سمجھتے ہیں وہ چاہتےتھے کہ مجالس کو ختم کر دیں عمامہ اور ٹوپی کا معاملہ کیا تھا اور یہ اس سے کچھ اور سمجھتے تھے اور اپنی سوچ کے اعتبار سے عمامہ کی مخالفت کرتے تھے وہ سمجھ گے تھے یہ عمامہ ہی ان کے مقاصد کو ختم کر سکتا ہے اور یہ مجالس بھی انکو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
جب ایک قوم ماہ محرم میں ایک آواز بلند کرتی ہے ایک آوازہو کر بولتی ہے یہ نہ سمجھنا کہ یہ مجالس اور یہ رونا اس لئے ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے لئے روتے ہیں امام علیہ السلام کو ہمارے آنسووں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ آنسو کچھ کر سکتے ہیں لیکن یہ مجالس لوگوں کو اس طرح جمع کرتی ہیں کے لاکھوں لوگوں کو دو مہینوں میں خصوصا دس محرم کو دنیا کے سامنے لاکھوں کا ایک ہی چہرہ پیش کرتی ہیں ان عزاداروں کو پورے ملک میں خطبا اور علماء محرم الحرام میں متحرک کر سکتے ہیں ایک مسئلہ کے لئے یہ مجالس تمام دیگر سیاسی پہلووں سے مہم تر ہیں ایسے ہی نہیں کے ہمارے ائمہ فرماتے کہ ہمارے مصائب کو منبرون پر پڑھا کرو ایسے ہی نہیں فرمایا ہمارے ائمہ جو شخص ہمارے مصائب پر روے گا یا رلائے گا یا رونے والوں جیسی شکل بناے گا اس کا ثواب بہت زیادہ ہے مسئلہ رونا نہیں بلکہ مسئلہ سیاسی ہے جسکو ہمارے ائمہ الہی بصیرت کے ساتھ چاہتے تھے اس قوم کو متحرک اور متحد کریں مختلف طریقوں سے اس قوم کو متحد کریں تاں کہ کوئی انھیں نقصان نہ پہنچا سکے۔