اے عزیز! علوم عالیہ اور قرآن و حدیث میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عذاب کی شدت اور سختی کے مرحلے اور مراتب میں تمہاری عقل عذاب اور اس کی سختیوں کا جتنا بھی تصور کرے اس سے بھی زیادہ شدید عذاب کا امکان ہے۔ اگر تو حکمت متعالیہ کے فلاسفہ کے براہین اور ادلہ سے بے خبر اور ناواقف ہے یا اہل مکاشفات کی ریاضتوں پر یقین اور ایمان نہیں رکھتا تو کم از کم تو خداوند عالم کے فضل و کرم پر تو ایمان ضرور رکھتا ہے، انبیائے الہی کو سچا مانتا ہے۔ تو ہماری معتبر کتابوں میں مذکورہ ان احادیث کو تو معتبر مانتا ہے جنہیں سارے علمائے امامیہ صحیح اور درست مانتے ہیں ۔ تو ائمہ معصومین (ع) سے مروی احادیث کو صحیح مانتا ہے۔ تو نے حضرت امیرالمومنین علی (ع) کی مناجات کو دیکھا ہے، تو نے دعائے ابوحمزہ ثمالی میں سیدالساجدین کی مناجات کو دیکھا ہے۔ جب دیکھا ہے اور پڑھا بھی ہے تو ذرا اس کے معانی اور مطالب کے بارے میں غور و فکر کر، ان دعاؤں کے ہر جملوں پر غور فکر کرے، اس میں تدبر کر۔
ایسا نہیں ہے کہ تو لمبی لمبی دعاؤں کو جلدی جلدی ختم کرلے اور ان کے معانی و مفاہیم میں غور و فکر نہ کرے، غور کرنے سے اندازہ ہوگا کہ ان دعاؤں میں کیا ہے اور جن عظیم ہستیوں کی زبان مبارک سے یہ دعاؤں نکلی ہیں وہ کیسی عظیم ہستی ہیں اور انہوں نے خود کو خدا کے سامنے کیا سمجھا ہے اور کس طرح اور کس ادب و احترام کے ساتھ خدا سے گفتگو اور راز و نیاز کرتی ہیں۔ یہ سارے سوالات ہیں جو انسان کو خود کی خدا کی عظیم ذات کی جانب متوجہ کراتے ہیں شرط تدبر اور تفکر کی ہے۔ فکر کرنے کو حدیث میں عابد کی 70/ سال کی عبادت سے بہتر جان گیا ہے۔
خدا کی توحید، اس کی ذات وحده لاشریک، اس کی رحمانیت، رحیمیت، غفاریت، رازقیت، ستاریت اور دیگر اسمائے حسنی کے بارے میں غور و فکر اس کے کلام اور آیتوں کے بارے میں غور و فکر، اس کی مخلوقات کے بارے میں غور و فکر۔ ہم ذرا اس زاویہ نظر سے غور کرکے تو دیکھیں، کبھی اس طرح سوچنے اور فکر کرنے کی زحمت تو کریں پھر دیکھیں که ہم کیا ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیوں آئے ہیں، کہاں پلٹ مرجائیں گے، کس نے پیدا کیا ہے، وہ ہم سے کیا مطالبہ رکھتا ہے۔
خدا نے قرآن کریم میں نیک اعمال انجام دینے والوں کے بارے میں کہا ہے۔ اسی طرح برے اور خدا کی مرضی کے خلاف کام کرنے والوں کو کس نے عذاب جہنم کا وعدہ کیا ہے۔ قرآن کی روسے اہل جہنم، مالک (جہنم کے محافظ) سے کهیں گے کہ وہ انهیں ہلاک کردے لیکن یہ اس کے بس کی بات نہ ہوگی کیونکہ موت اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے: "یا حسرتا ما فرطت فی جنب اللہ؛ ہائے افسوس کہ ہم خدا کے بارے میں اس طرح تفریط نہ کرتے" یہ کیا افسوس ہے کہ خداوند عالم اپنی تمام تر عظمتوں کے باوجود اس کا اس طرح ذکر فرما رہاہے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: "اس دن ہر دودھ پلانے والی اسے بھول جائے گی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور ہر حاملہ اپنا حمل گرادے گی اور تو لوگوں کو نشہ میں چور دیکھے گا، حالانکہ وہ نشہ میں مست نهیں ہے بلکہ اللہ کا عذاب شدید ہے۔"
میرے عزیز! خوب غور و فکر کر، قرآن قصے اور کہانیوں کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن تمہارے ساتھ مذاق اور شوخی نهیں کررہا ہے۔ بلکہ دیکھ اور غور کر کہ وہ کیا فرما رہاہے: یہ کیسا عذاب ہے جو اپنے عزیزوں سے بھی غافل اور بے خبر نبادے گا۔ اگر تو اہلبیت عصمت و طہارت کی احادیث میں غور کرے تو جان لے گا کہ آخرت کا عذاب اس عذاب سے مختلف اور جداگانہ ہے جس کا تو تصور کرتا ہے۔ اخروی عذاب کا دنیاوی عذاب سے کوئی موازنہ نہیں کرنا اور اس عذاب کا اس عذاب سے مقابلہ کرنا غلط اور باطل ہے۔