امام نجف یا کاظمین میں جب زیارت کیلئے حرم جاتے تھے تو بعض حضرات کی طرح ساری دعائیں حرم میں نہیں پڑھتے تھے تاکہ لوگ دیکھ لیں ۔ شب جمعہ کو جب بھی حرم جاتے تو امام گھر واپس آتے تھے اور دعائے کمیل کو گھر یا مسجد سے واپس ہونے کے بعد اپنے کمرے میں اکیلے پڑھتے تھے اور دروازے کو بھی اندر سے بند کردیتے تھے۔ پھر پون گھنٹے کیلئے شمع گل رہتی تھی اور کچھ خاص عبادتیں بجا لاتے تھے۔ ایک دفعہ میں امام کے ساتھ مسجد سے واپس آیا۔ میں نے دیکھا کہ امام نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ اوپر والے کمرے کا تالہ بھی یوں لٹکا ہوا تھا میں نے خیال کیا کہ دروازے پہ تالا لگا ہوا ہے۔ میں نے سوچا کہ امام باہر گئے ہیں ۔ گھر کے خادم سے پوچھا: میں تو ابھی امام کے ساتھ مسجد سے آیا ہوں اتنے میں امام کہاں چلے؟ خادم نے جواب دیا کہ امام سیڑھیوں سے اوپر گئے ہیں ۔ میں نے کہا: اوپر تو نہیں ہیں کمرے کی شمع گل ہے اور دروازے پر تالا پڑا ہوا ہے۔ اسی وقت آیت اﷲ تبریزی بھی امام سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ پھر خادم نے کہا کہ امام اوپر ہی ہیں ۔ جیسے ہی میں نے کہا: خدا کی قسم نہیں ہیں ، ان کے کمرے پر بھی تالا لگا ہوا ہے، دیکھا کہ کمرے کے اندر سے امام کی آواز آئی: ’’آقائے فرقانی! میں یہاں ہوں ، شور نہ کرو‘‘ یہ کہہ کر اٹھے اور اندر کی کنڈی کھول دی۔ میں نے عرض کیا: آقا! کیوں اندھیرے میں ہیں ؟ دروازے پر بٹن تھا، میں نے فوراً بجلی آن کر دی اور دیکھا کہ امام سجدے میں ہیں ۔ فرمایا: ’’کیا کام ہے؟‘‘ اس وقت امام کچھ اذکار پڑھتے تھے لیکن ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ وہ کیا تھے۔ جب سجدے سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ چہرہ اشکوں سے تر ہوچکا ہے اور مہر بھی آنسوؤں سے بھیگ گئی ہے۔