میں تیس سال تک اپنے استاد بزرگوار رہبر عظیم الشان انقلاب کے ساتھ رہا ہوں ۔ اسی عظیم الشان شخصیت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کوئی ایسی بات بھی ان سے نہیں سنی جس میں غیبت کا شبہ ہو، غیبت تو درکنار، غیبت کا شبہ بھی ان کی باتوں میں نظر نہیں آیا۔
میں نہیں بھولتا کہ ایک دن امام درس دینے کیلئے مسجد سلماسی میں تشریف لائے۔ ان کے سانس تیز تیز چل رہا تھا ایسے میں انہوں نے فرمایا: ’’واﷲ! آج تک اتنا نہیں ڈرگیا تھا‘‘ اور مزید فرمایا: ’’میں درس دینے نہیں آیا ہوں ۔ میں تو کچھ بات کرنے آیا ہوں ‘‘ میں تقریباً دس پندرہ سال سے ان کے درس میں جا رہا تھا کسی بھی وقت طلاب سے یوں سختی سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ امام ؒ غصہ کی حالت میں تھے اور فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس علم نہیں ہے تو کیا عقل بھی نہیں ہے؟۔ اگر دین نہیں رکھتے ہو تو کم سے کم عاقل تو بنو اور ایسا کام نہ کرو کہ انسانیت بھی باقی نہ رہے‘‘ اس کے بعد امام سیدھے گھر گئے اور شدید بخار میں مبتلا ہوئے اور اس۔۔۔ کی وجہ سے تین دن تک گھر پہ رہے۔
یہ سب مسائل اس لیے رونما ہوئے کہ انہوں نے سنا تھا کہ ایک طالب علم نے کسی مرجع تقلید کی غیبت کی تھی۔ خود امام ؒ نے غیبت نہیں کی تھی، بلکہ ایک طالب علم نے مراجع میں سے کسی ایک کی غیبت کی تھی۔ یہ سن کر امام ؒ کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔