ایک دن امام ؒ حرم امام حسین (ع) میں بیٹھے زیارت پڑھ رہے تھے۔ ایک بے ادب خادم نے امام کے نیچے سے فرش کھینچ لیا۔ امام نے سجادہ اور مفاتیح اٹھائی اور پتھر پر بیٹھ گئے۔ بعض دفعہ امام حرم جاتے تو وہ خادم جان بوجھ کر جھاڑو لگاتے اور گرد وغبار امام ؒکی طرف پھینک دیتے۔ ہم تو سانس نہیں لے سکتے تھے۔ لیکن امام فرماتے کہ کیا کرتے ہو، رہنے دو، وہ اپنا کام کریں یہاں تک کہ اس خادم نے امام کے پاؤں تلے فرش بھی سیمنٹ لیا، خدام کے اس کام کی دلیل یہ تھی کہ جب بھی علماء حرم آتے تھے وہ علماء کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور ان علماء سے بلا وجہ انعام لیتے تھے جبکہ امام ایسا نہیں کرتے تھے کہ ان کو پیسہ دیں ۔ میں نے اس خادم سے کہا: خدا کی قسم میں تمہیں اس کا مزہ چکھاؤں گا۔ امام سمجھ گئے اور فرمایا:
’’یہ شرافت کے خلاف ہے۔ کیا کام ہے ؟ اس سے تمہارا جانے دو۔ وہ لوگ اپنے کام انجام دیں ۔ ٹھیک تو ہے کہ حرم کا فرش ہی تو جمع کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا: نہیں ! اس کے بعد ہم نے گورنر کے یہاں شکایت کی کہ شیخ محمد فرش بچھانے والوں کے ہیڈ نے اس طرح امام ؒ کی توہین کی ہے۔ اس پر فوراً اسے گرفتار کیا گیا۔ اس کے بیوی بچے سب امام کے گھر پہ پہنچے اور کہا کہ اس نے غلط کیا ہے۔ اس سے غلطی ہوئی ہے۔ اس نے امام کو نہیں پہچانا تھا۔ اب ہماری روزی ختم ہوجائے گی۔ امام حرم جانے کیلئے باہر نکلے تو آپ کے خادم حسین نے عرض کیا کہ یہ عورت اس فرش بچھانے والے کی اہلیہ ہے۔ وہ عورت خود بھی امام کے پاؤں پہ گر پڑی۔ امام ؒنے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، اپنے کام پہ جائے۔ کیوں لوگوں کی روزی لات مارتے ہو‘‘۔