شاہ سے دوستی یعنی غارتگری کے اعلان صادر ہونے کے بعد قم سے بہت سارے طلاب وفضلاء کو سربازی (رضا کار بنانے) کے عنوان سے پکڑ لیا گیا اور ان کو تہران میں باغ شاہ لے جایا گیا۔ ان کے روحانی لباس اتار لئے گئے اور اس کے بدلے فوجی وردی پہنا دی گئی۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں امام کی خدمت میں موجود تھا۔ ایک سید طالب علم پریشان کن حالت میں اس طرح سے امام ؒکے گھر پہ دوڑتا ہوا آیا کہ اس کے دھکے کی وجہ سے امام کے گھر کا دروازہ دیوار سے جا کے لگا۔ سید گھر میں داخل ہو کر اس کمرے میں آیا جہاں پر میں اور امام بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر ہنسی بھی آ رہی تھی اور دکھ بھی ہو رہا تھا۔ امام سر جھکائے لکھنے میں مصروف تھے۔ سید نے اونچی آواز میں کہا: آقا! ہم مسجد امام سے آقائے مشکینی کے درس سے باہر نکل رہے تھے کہ پولیس نے حملہ کیا اور طلاب کو پکڑ کے ٹرکوں پر بٹھا دیا اور ان کو سربازی کیلئے لے گئے۔ آقائے رفسنجانی کو بھی پکڑ کے لے گئے۔ سید کی اس پریشان کی خبر سے ہم سب کو دکھ ہوا۔ بعض تو رو پڑے۔ امام ؒ جیسے بیٹھے تھے اور آپ کے ہاتھ میں قلم تھا، عینک کے اوپر سے سید کی طرف ایک نظر دیکھا اور فرمایا: ’’تم بیٹھتے کیوں نہیں ؟‘‘ جب سید بیٹھ گیا تو امام نے عینک اتاری اور ہمیشہ کی طرح پر سکون انداز سے فرمایا: ’’سربازی کیلئے لے گئے ہیں ؟‘‘ سید نے اضطراب کے ساتھ کہا: جی ہاں ! امام ؒنے فرمایا: ’’لے جائیں ۔ یہ عسکری تربیت بھی سیکھ لیں گے۔ ہمیں مستقبل میں ان سے کام لینا ہے۔ امام ؒ کی یہ بات اس وقت واقعاً معجزانہ تھی۔