مدرسہ فیضیہ کے واقعہ سے پہلے عید کے نزدیک ایک دن صبح سویرے، راستہ چلتے ہوئے کچھ اشتہارات دیکھے گئے جو در ودیوار پر لگے ہوئے تھے۔ یہ اشتہارات ساواک کی طرف سے تھے اور مختلف ناموں مثلاً جمعیت زنان اور۔۔۔ در ودیوار پر چپکائے گئے تھے۔ جن میں امام ؒکے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی تھی اور ان کی توہین کی گئی تھی۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر مجھے سخت دکھ ہوا۔ بہرحال امام کے گھر گیا۔ وہاں جا کے معلوم ہوا کہ بعض حضرات ان اشتہارات کو لے کر وہاں پہنچے ہیں ۔ مجھے بہت دکھ ہوا تھا اس لیے آقائے صانعی سے کہا: امام سے کچھ کام ہے۔
آقائے صانعی نے میرے پہنچنے کی اطلاع امام کو دی اور کچھ دیر بعد امام ؒ نے فرمایا: ’’اندر آ جاؤ‘‘ جب امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ درس دینے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ یہ بات مجھے اس قدر انوکھی لگی کہ ان مشکل حالات اور بحران میں ۔ در حالیکہ مسائل اتنے الجھے ہوئے ہیں اور ان اشتہارات نے سب کا دماغ خراب کردیا ہے اور امام مطالعہ میں مصروف ہیں ۔ وہ بھی ایسی کتاب کا مطالعہ کہ جس کا شمار درسی کتابوں میں نہیں ہے۔ مثلاً وہ ایک ایسی کتاب تھی جس کو علماء میں سے کسی نے ایک موضوع پر کوئی بات لکھ دی تھی اور امام ؒ اس کا مطالعہ کر رہے تھے تاکہ مطالعہ کے بعد بحث وگفتگو کے ذریعہ اس کو رد کریں ۔ ہم ان حالات میں تو اصلاً کتاب کی طرف مڑ کے نہیں دیکھ سکتے جبکہ امام آرام سے مطالعہ کر رہے ہیں ۔ اس پر مجھے بہت تعجب ہوا۔