امام ؒکی شجاعت میں کوئی کلام نہیں ہے اور تعریف کے حدود سے باہر ہے۔ مدرسہ فیضیہ کے اسی واقعے میں جب شاہ نے تقریباً ہزار افراد کو سادے ڈریس میں غیر محسوس طریقہ سے مدرسہ میں گھسیڈ دیا تھا کہ جنہوں نے بہت زیادہ ظلم وستم کیا۔ جب ان ظالموں نے مدرسہ میں اپنی مہم کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھا تو قم کی سڑکوں پہ نکل آئے اور ’’جاوید رہے شاہ‘‘ کا نعرے لگا کر شہر میں ایک عجیب رعب وحشت کا ماحول پیدا کردیا تھا یہاں تک کہ لوگوں میں اب سانس لینے کی جرأت نہیں تھی، چونکہ ان کا ہیڈ کواٹر حکیم نظامی کا کالج تھا اور یہ امام کے گھر کے نزدیک تھا۔ لذا بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ اب یہ ظالم امام کے گھر کا رخ کریں گے۔ اس لیے امام کو یہ اطلاع دی گئی کہ یہ لوگ ان نعروں اور اسلحوں کے ساتھ آپ کے گھر کی طرف آ رہے ہیں ۔
بعض نے عافیت اس میں سمجھی کہ وہاں نکل جائیں اور امام کے گھر کا دروازہ بند کر کے باہر سے تالا لگا دیں تاکہ وہ اندر نہ آ سکیں اس لیے گھر کا دروازہ بند کردیا گیا۔ یہ حضرات سمجھ رہے تھے کہ امام اس پر راضی ہوجائیں گے۔ امام ؒ کو جب یہ پتہ چلا کسی سے کہے بغیر خود کمرے سے باہر نکلے اور جا کر دروازہ کھول دیا اور دروازے کے دونوں پلوں کو کھلا رکھ دیا۔ خود دروازے کے نزدیک والے کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ کمانڈر کی آواز لمحہ بہ لمحہ زیادہ اونچی ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن امام بالکل ہی سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں تو ذرا سی بھی پرواہ نہیں تھی کہ یہ ہزار افراد پرمشتمل فورسز آپ کے گھر پہ دھاوا بول کر تباہی مچا دے گی۔