جب امام ؒ ظالم شاہ کی قید سے رہا ہوئے تو اخبار ’’اطلاعات‘‘ نے اپنے آرٹیکل میں ایک بات لکھی کہ علماء نے حکومت سے ساز باز کیا ہے۔ اس کی تردید میں امام ؒ نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔ شاہ نے ساواک تہران کے سربراہ مولوی کو امام سے عذر خواہی کیلئے بھیجا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ ملاقات خصوصی ہو۔ لیکن چونکہ امام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی فرد سے خواہ وہ حکومت کا ہو یا حکومت کے علاوہ، اس سے خصوصی ملاقات نہیں کرتے تھے، اس لیے حکم دیا کہ جس کمرے میں وہ آ رہا ہے کچھ اور افراد بھی موجود رہیں ۔ لہذا کچھ لوگ اس میٹنگ میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ مولوی نے گفتگو شروع کی اور عذر خواہی کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس دوران ایک ایسا جملہ اس نے کہا جس سے توہین کی بو آ رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا: آپ لوگ ایسا نہ کریں کہ ہم اپنی سرکاری ڈیوٹی کو انجام دینے پر مجبور ہوں ! یہ سن کر امام ؒ نے اپنی انگشت شہادت سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے پورے جلال سے کہا: ’’میں بھی اسلام کا ایک سپاہی ہوں ۔ لہذا تم بھی ایسا نہ کرو کہ ہم اپنا وظیفہ انجام دینے پر مجبور ہوں ‘‘۔