حوزہ کے علماء اور طلاب جب اصل ماجراء (لائحہ) سے باخبر ہوئے اور قم اور قصبوں میں متعدد جلسوں کی وجہ سے روحانیت کے ہر طبقہ میں ایک مستحکم رابطہ ہوگیا اور سب ایک دوسرے سے رابطہ میں آگئے اور نزدیک سے باتوں کو سمجھنے لگے تو ان علماء اور افاضل نے ماہ مبارک رمضان کی تبلیغی موقعیت اور اس کا صحیح استفادہ کرکے لوگوں کو اس منظور شدہ لائحہ اور علماء و مراجع کی مخالفت سے آگاہ کیا تو لوگ بھی میدان میں آگئے اور احتجاج کرنا، دھرنا دینا اور بازاروں اور شہروں کو بند کراکے مذکورہ لائحہ کی منظوری پر اعتراض شروع کردیا اور حکومت سے مراجع کی درخواست کی مثبت جواب کا مطالبہ کیا۔
حکومت نے تلگراف میں اعلان کیا کہ انتخاب کرنے اور ہونے والوں میں اسلامیت کی جو شرط ہے وہی علمائے کی نظر ہے لیکن امام خمینی (رح) نے اسے کافی نہیں سمجھا اور کہا کہ یہ تلگراف سے لغو نہیں ہوگا بلکہ علم کی حکومت رسمی طور پر لغو ہونے کا اعلان کرے جو علماء اور مراجع پر تہمت لگائی ہے اس کا عوام اور مراجع کے سامنے معذرت کرے۔
خاطرات سید حسین موسوی، ص 110