جماران

ہم زندگی کے شور و غل میں غرق ہیں اور زندگی کا مفہوم بھلادیا ہے

صالحین اور بزرگوں کی زندگی کا مطالعہ اور اس میں غور و فکر، تدبر اور تامل اپنے ہمراہ بے شمار برکتیں رکھتا ہے

رسولخدا (ص) نے فرمایا: قیامت کے دن اس وقت تک بندہ قدم نہیں اٹھائے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ ہوجائے گا: اس کی عمر کے بارے میں کہ تم نے اپنی عمر کس راہ میں تمام کی ہے۔ اس کی جوانی کے بارے میں کہ تم نے اپنی جوانی کس راہ میں گنوائی ہے۔ اس کے مال کے بارے میں کہ تم نے اپنا مال کس راہ میں خرچ کیا ہے اور کہاں سے لائے تھے۔ اور ہم اہلبیت (ع) کی دوستی کے بارے میں سوال ہوگا۔

اس وقت ہم سے بہت سارے لوگوں کے لئے کہ ماشینی زندگی کے شور و غل میں غرق ہیں اور ہم نے زندگی کا مفہوم و معنی بھلادیا ہے، اور اس کی حقیقت کو فراموش کردیا ہے؛ روح، ذہن اور زبان کی حفاظت کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کرنا بھرپور ضروری اور لازم ہے۔ ہم سے اکثر لوگ جو خواب غفلت میں زندگی گذاررہے ہیں اور اپنے مقصد و مقصود کو فراموش کئے ہوئے ہیں اور فرع کو اصلی کی جگہ اور سایہ کو آفتاب کی جگہ انتخاب کرلیا ہے۔ شاید اپنے بزرگوں کی سیرت کا مطالعہ انہیں بیدار کرے اور ان کی رفتار و گفتار کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا ہماری زندگی کو معنی خیر بناسکتا ہے۔

صالحین اور بزرگوں کی زندگی کا مطالعہ اور اس میں غور و فکر، تدبر اور تامل اپنے ہمراہ بے شمار برکتیں رکھتا ہے۔ منجملہ اپنے بارے میں تحقیق اور دائمی محاسبہ اور ان بزرگوں کی انتھک علمی اور عملی مجاہدت دنیاوی مشقت بار زندگی ہے۔ علمائے دین نے بخوبی ادراک کیا ہے کہ انسان ہستی کے بامقصد نظام کے ایک جزء کی طرح ایک روشن ہدف رکھتا ہے اور وہ ہدف و مقصد وہی خداوند سبحان کا تقرب ہے۔

واضح ہے کہ قرب الہی تک رسائی اور اس راہ میں قدم رکھنا بہت ساری مشکلات کے ساتھ رہا ہے لہذا ان موانع سے گذرے اور اپنی حفاظت کئے بغیر اس تک رسائی ممکن نہیں ہوگی۔ دینی معارف نے وسیع پیمانہ پر اس امر کی جانب توجہ دلائی ہے۔ قرآن کریم سورہ انبیاء آیت 47/ میں ارشاد فرماتا ہے:

"ہم روز قیامت عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی کو بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر ہوگا اسے بھی سامنے لائیں گے اور ہم حساب کرنے پر اکتفا کریں گے۔"

خدا ترس اور ربانی علماء نے آخرت میں اپنے اعمال کا دقیق محاسبہ اور حساب و کتاب پر نظر رکھتے ہوئے اپنے اعمال و رفتار پر شدت کے ساتھ پابندی کرتے ہیں اور شب و روز اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ استاد ضیاء الدین نجفی اپنے والد کے حوالے سے کہتے ہیں: جوانی کے ایام میں اپنی زبان کی حفاظت کے لئے زبان کے نیچے سنگریزہ رکھ لیا تھا۔ جیسے ہی زبان میں جنبش ہوئی وہ سنگریزہ حرکت کرنے لگتا تھا اس سے میں سمجھ جاتا تھا کہ ہمیں اپنی زبان کو کنٹرول کرنا چاہیئے۔ بات اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ میں نے سہوا لسانی خطاوں پر اپنے لئے سزائیں معین کررکھی تھیں مثال کے طور پر اگر کوئی خطا سرزد ہوتی تھی تو اس دن ایک جز قرآن پڑھنے کا خود کو پابند بنایا تھا۔

انسان جب اپنے دل و دماغ کو اغیار سے خالی نہ رکھے اور بقدر ضرورت ہی گفتگو کرے اس وقت سکون کے فرشتہ اس کے دل و دماغ پر نازل نہیں ہوتے اور اس کا راز یہ ہے کہ برسوں پہلے اکابر علماء اور دانشوروں نے اس راہ میں کوششیں کی ہیں اور قلم فرسائی ہے۔

ای میل کریں