امام خمینی (رح) کی مرجعیت اور اعلمیت کی تائید میں نشر ہونے والے اعلانیہ پر حکومت کا رد عمل یہ ہوا کہ حضرت امام (رح) کے توضیح المسائل کی نشر و اشاعت پر پابندی لگادی۔ اس طرح کہ قم میں صرف مولانا نامی کتاب فروشی تھی جس نے اس رسالہ کو خفیہ طور پر چھاپا۔
یہ خود ایک انقلاب عالم، امام کے شاگرد اور عقیدتمند تھے۔ قابل ذکر ہے کہجب رسالہ چھپا اور مرحوم مولانا نے اسے تقسیم کیا تو نہ جلد پر اور نہ ہی صفحات پر امام کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اس کے باوجود اگر ساواک ان میں سے کسی ایک کو گرفتار کرلیتی تو مدتوں قید کردیتی تھی۔ مثال کے طور پر ہمارے بعض طلاب احباب میں سے دو تین گرفتار ہوئے تھے۔ کم سے کم 4/ یا 5/ سال قید میں رہے ہیں۔امام کی دوسری کتابیں جیسے تحریر الوسیلہ جو خفیہ طور پر ایران میں لائی گئی تھی اور آفسٹ پر چھپی تھی اور عروة پر حاشیہ اس کی بھی نشر و اشاعت میں مولانا کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن قم کے کچھ انقلابی طلاب نے اس رسالہ اور حضرت امام کی تحریرالوسیلہ کتاب کی نشر و اشاعت میں کافی کوشش کی۔
انہی انقلابی، مجاہد اور سرگرم افراد میں ایک طالب علم کرمانشاہ کا تھا جس کا نام عبداللہ اسلامی کرمانشاہی تھا۔ انقلاب کے بعد مغربی محاذ پر اس کا ایک ہاتھ کٹ گیا وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ قم میں خفیہ طور پر امام کی کتابوں کی نشر و اشاعت کا ذمہ دار تھا۔ اس کام کا بجٹ انقلابی افراد فراہم کرتے تھے اور کبھی 5/ ہزار یا 10/ ہزار کتاب چھاپنے کی ذمہ داری لیتے تھے۔