اکثر انقلابیوں اور حضرت امام خمینی (رح) کے ماننے والوں کے لئے بہت ہی تلخ ایک واقعہ انقلاب سے پہلے آقا شمس آبادی کا قتل ہے۔ یہ اصفہان کے ایک مشہور، متقی و پرہیزگار اور عوام کے نزدیک مقبول عالم دین تھے۔ اگر چہ شہر کے صف اول کے علماء میں شمار نہیں ہوتے تھے لیکن لوگوں کے درمیان کافی اثر و رسوخ رکھتے اور مقبول شخص تھے۔ مرحوم شمس آبادی اگر چہ انقلاب اور انقلابیوں کے درمیان اچھا رابطہ نهیں رکھتے تھے، لیکن امام اور تمام انقلابیوں کے خلاف کوئی قدم بھی نہیں اٹھایا۔
حکومتی اخبار نے اس واقعہ کو بڑا بنانے اور اسے شہید جاوید سے جوڑنے کی کوشش کی کہ انقلابیوں اور سرفہرست امام خمینی (رح) کو کبھی اشاروں میں اور کبھی صراحت کے ساتھ اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ افسوس کے انقلابی علماء اور شہید جاوید کے مخالفین نے بھی اسے خوب ہوادی اور اسی سمت دوڑ پڑے جدھر حکومت لے جانا چاہ رہی تھی۔ لیکن ہمراے مسئلہ دونوں ہی طرف سے تلخ اور ناگوار تھا؛ کیونکہ ایک طرف ایک فاضل، مقبول اور لائق عالم کا قتل ہوا تھا اور دوسری طرف اس قتل کا ذمہ دار انقلابیوں اور حضرت امام (رح) کو ٹھہرایا جارہا تھا۔