تہران آمد
ابراہیم یزدی نقل کرتے ہیں کہ جہاز دھیرے دھیرے تہران ہوائی اڈہ پر اترنے لگا۔ جہاز میں موجود نامہ نگار نے سوالات کئے۔ ایک نامہ نگار نے امام سے پوچھا: اب جبکہ آپ 15/ سال جلاوطنی کی زندگی گذارنے کے بعد ایران واپس آرہے ہیں تو آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ امام نے جواب دیا: کوئی احساس نہیں۔ یہ جواب متعدد تفسیروں کا حامل ہے۔ کیا امام حقیقت میں کوئی احساس نہیں رکھتے تھے؟ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ بے حس تھے؟
مرحوم ڈاکٹر مہدی حائری یزدی جو فلسفہ کے استاد تھے اور قریب سے بہت ہی عمیق انداز میں امام سے آشنا تھے؛ نے مجھے بتایا کہ یہ امام کے اندر احساس کے نہ ہونے کا پتہ نہیں دے رہا ہے بلکہ آپ کے عرفانی مکتب اور روحانی جذبہ کی ایک تجلی تھی۔ استاد حائری کا نظریہ تھا کہ امام عرفان میں مکتب سہروردی کے پیرو تھے۔ اس مکتب میں سالک اس مقام پر پہونچ جاتا ہے کہ بیرونی حوادث کے مقابلہ میں وقتی احساسات اور ظاہری تلاطم سے متاثر نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر سالک خود کو جتنا خدا سے نزدیک کرتا جاتا ہی اتنا ہی خطری حوادث کی نسبت بے خیال اور بے احساس ہوتا جاتا ہے۔